کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 110
ادائیں ہیں ، مثالیں ہیں ، قصے ہیں ۔ کلام میں اپنے مرکز کی طرف باربار کا رجوع ہے، تہدید و زجر اور عتاب کے گونا گوں اسالیب ہیں ، افسوس ہے ، حسرت ہے، شدت ِیقین ہے، گریز کی مختلف صورتیں اور اعراض کے مختلف انداز ہیں ۔ اس میں محبت و التفات کے موقعوں پر، ایں چیست کہ چوں شبنم برسینۂ من ریزی کی کیفیت ہے اور غضب کے موقعوں پر، دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں ، وہ طوفان کا سمان ہے۔ خطاب کے وہ عجائب تصرفات ہیں کہ آدمی اُن میں بالکل کھو کر رہ جاتا ہے۔‘‘ (ص۲۲) ایک اور جگہ ہے کہ ’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں ، اُن میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں ۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پرپڑتا ہے، اس لیے ان سے اِبا اُس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اُس کی صحیح رہنمائی کرتی اور وہ بغیر کسی تردّد کے فیصلہ کرلیتا ہے کہ اُسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ اُسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے، دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں ، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اُس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہوجاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔‘‘ (ص۳۸) مصنف موصوف حق و باطل میں تلبیس و آمیزش کا اور ایک ہی بات کی کئی تاویلیں کرلینے کا اتنا ماہر ہے کہ اچھے بھلے معقول لوگ بھی اس کے اس ہنر کے آگے پانی بھرتے اور دھوکا کھا جاتے ہیں ۔اس کا ثبوت آپ کو ’غامدی صاحب،علماء کے نظر میں ‘ نامی کتاب کے مطالعے سے مل سکتا ہے۔جس میں موصوف نے تین نو آموز مفتیانِ کرام کو خوب بیوقوف بنایاہے۔ اس کے علاوہ آپ اُوپر کے دوسرے اقتباس کا بغور مطالعہ کرکے دیکھیں جس میں اُس نے ’اونٹ‘ کو کس خوبصورتی سے سیاقِ کلام سے نکال کر اور اپنی خطابت کا جوہر دکھا کر ایک غلط بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’وہ جانتاہے کہ گھوڑے ، گدھے، دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں ، سواری کے لیے پیدا کیے