کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 11
پریہودی قابض ہوسکیں ۔ اس وحشیانہ آپریشن کے شرکا میں سے کئی بعد میں اسرائیل کی وزارتِ عظمی اوردیگر اہم مناصب پر فائز ہوئے اور اسرائیل کے بیشتر لیڈر دہشت گرد تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں ۔ اس لئے اسرائیل کل بھی دہشت گرد تھا اور آج بھی ہے۔ اس کے باوجود مظلوم فلسطینیوں کے مقابلے میں مغربی ملکوں کی ساری عملی حمایت جابر اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسرائیل کے مظالم پر سلامتی کونسل میں کوئی مذمتی قرار داد منظور بھی ہوجائے تو وہ منافقت اوردکھاوے کے سوا کچھ نہیں ، کیونکہ اس کے پیچھے ظالم کوظلم سے روکنے کی کوئی نیت ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر کوئی موجودہ عالمی نظام سے دنیا میں حق وانصاف اور امن امان کے قیام کی توقع رکھتا ہے تواسے حماقت اور بے بنیاد خوش گمانی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن فلسطین، عراق افغانستان اورکشمیر سمیت دنیا میں ہر اس جگہ جہاں استعماری طاقتوں نے ظلم اورحق تلفی کا بازار گرم کر رکھا ہے ، برپا ہونے والی ناقابل شکست مزاحمتی تحریکوں نے ضرور اس اُمید کے چراغ روشن کر دیے ہیں کہ ظلم ودرندگی اوربے انصافی وسفاکی کا یہ عالم نظام جلد زمیں بوس ہوگا اور سچائی اورانصاف کی بالا دستی پرمبنی نظام اس کی جگہ لے گا!! [ثروت جمال اصمعی:۱۴/جنوری ۲۰۰۹ء]
اسرائیلی یلغار کون روکے گا…؟
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی قرار داد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی، لیکن اسرائیلی حکومت نے بان کی مون کی اپیل، سلامتی کونسل کی قرارداد اور دنیا کے ۲۰۵ ممالک میں تشویش کی لہر کو مسترد کرتے ہوئے عالمی برادری کے منہ پر طمانچہ رسید کردیا ہے۔ دہشت گرد اور معصوم بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے اسرائیلی وزیر دفاع نے سلامتی کونسل کی قرار داد کو پاے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جنگ جاری رہے گی اور ملٹری پریشن میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں کوئی ہے جو اسرائیل کو روک سکے ؟
اطلاعات کے مطابق غزہ میں شہید بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی تعداد نو سوتیس ہے ، زخمیوں کی تعداد۴۳۰سے متجاوز ہے، املاک کے نقصان کا اندازہ اربوں روپے ہے، آگ اور خون کا یہ کھیل بند نہ ہوا تو تل ابیب بھی محفوظ نہ رہے گا۔ تل ابیب کے بعد کسی اور دارالحکومت کی سلامتی کی ضمانت کون دے گا؟ بان کی مون غزہ کے معصوم شہریوں کے تحفظ کی ضمانت