کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 109
اللہ ہر چیز پرقادر ہے۔‘‘
عربیت کی دھونس جمانے سے پہلے کتاب کے مصنف کو آیت کے فقرے فمنھم من یمشی علی بطنہ پر غور کرلینا چاہیے تھا۔ ویسے مذکورہ آیت میں دآبۃ کے آگے محذوف ماننے کی ضرورت نہیں ہے، کسی معروف مفسر نے یہاں محذوف نہیں مانا۔
کتاب میں تضادات
اس کتاب کے مطالعہ سے اس کے بعض تضادات بھی سامنے آئے ہیں ، مثال کے طور پر:
۱۔ قربانی کو ص۴۰۵ پر قانون، ص۴۰۴ پر نفل اور ص۶۴۹ پر سنت قرار دیا گیا ہے۔
۲۔ امام ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ کو پہلے غیرثقہ اور ناقابل اعتبار راوی ٹھہرایاگیا ہے۔ (ص۳۱) اور پھر آگے چل کر اُن کی روایت کردہ احادیث پر اعتماد کیاگیاہے۔ (ص۵۲۵ پر صحیح بخاری کی حدیث۶۷۶۴، پھر ص۶۵۱ پر سنن ابوداؤد کی حدیث ۳۲۹۰)
۳۔ ص ۲۳ پر ہے کہ قرآن ہر چیز پرمقدم ہے اور ص۴۷ پر سنت قرآن سے مقدم ہوگئی ہے۔
۴۔ ص۳۳ پر ہے کہ یہ غلط ہے کہ ہم متشابہات کامفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں اور پھر ص۱۸۰ پر ہے کہ متشابہات اُمور کے بارے میں ہم اصل حقیقت کو نہیں جان سکتے۔
کتاب کا اندازِ بیان
زیر نظر کتاب ’میزان‘ میں اگرچہ بہت ڈنڈی ماری گئی ہے تاہم یہ عام اُردو زبان میں نہیں لکھی گئی بلکہ اُردوئے مُعلّٰی میں لکھی گئی ہے۔ ہمارے علماے کرام کو بھی ایسی ہی اُردو زبان سیکھنی چاہیے۔
اس کتاب کا مصنف بہت ذہین، شاطر اور وسیع المطالعہ آدمی ہے۔ اس کی قادر الکلامی، زبان دانی، بیان کی روانی اور الفاظ کی میناکاری و گُل کاری (Flowery)کی داد دینی پڑتی ہے۔ چند ایک اقتباسات ملاحظہ ہوں :
ایک مقام پرلکھا ہے:
’’ حقیقت یہ ہے کہ اپنے اُسلوب کے لحاظ سے قرآن ایک بالکل ہی منفرد کتاب ہے۔ اس میں دریاؤں کی روانی ہے، سمندروں کا زور ہے، حسنِ استدلال کی ندرتیں ہیں ، ربط ِمعنی کی