کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 108
المؤمنین‘ کا راستہ اختیار کرلیا ہے : ﴿وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسَوُلَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَہُ الْھُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا﴾ (النساء :۱۱۵) ’’جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے پر چلے تو ایسے شخص کو ہم اُسی طرف پھیر دیں گے، جدھر وہ خود پھر گیا اور پھر اسے جہنم میں داخل کریں گے جو بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘ عربیت کا رُعب جمانا مصنف موصوف نے اس کتاب کے ذریعے اپنی ’عربی دانی‘ کا بھی خوب مظاہرہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ سورۂ انعام (۶) میں ایک آیت اس طرح آئی ہے: ﴿وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِیْ الَارْضِ وَلَا طٰئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّا اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ﴾ ’’اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر اپنے پاؤں سے چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوؤں سے اُڑتا ہو، مگر یہ سب تمہاری ہی طرح اُمتیں ہیں۔‘‘ اس میں دیکھ لیجیے، مقابل کے بعض الفاظ حذف ہوگئے ہیں ۔ مثلاً جملے کے پہلے حصے میں فی الارض ہے تو دوسرے حصے میں فی السماء کالفظ نہیں آیا۔ اسی طرح دوسرے حصے میں یطیر بجناحیہ کے الفاظ ہیں تو پہلے حصے میں تدب علی رجلیھا یا ارجلھا کے الفاظ حذف ہوگئے ہیں ۔‘‘ یہاں پر مصنف موصوف نے جو تدبّ علی رجلیھا یا ارجلھا حذف مانا ہے تو ان کو قرآن مجید کی درج ذیل آیت پیش نظر رکھ کر محذوفات نکالنے چاہئے تھے: ﴿وَاﷲُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَۃٍ مِنْ مَآئٍ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلَی رِجْلَیْنِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعٍ یَخْلُقُ اﷲُ مَا یَشَآئُ إنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (النور:۴۵) ’’اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چلتاہے، کوئی دوپاؤں پر چلتا ہے اور کوئی چار پیروں پرچلتا ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے ۔ بے شک