کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 106
دین کی غلط تعبیر
اس کتاب میں جو دین پیش کیاگیا ہے اور جو شریعت متعارف کرائی گئی ہے، وہ حقیقی دین اسلام اور اسلامی شریعت کے بالکل خلاف ہے۔اس میں دوسرے متجددین کی طرح اسلام کی ایسی تشکیل نو (Reconstruction) کی گئی ہے کہ وہ فی الواقع مغربی تہذیب کاچربہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی جعلی شریعت گھڑ لی گئی ہے اور اسلام کا ایک لبرل اور روشن خیالی ایڈیشن تیار کرلیاگیا ہے جو مغرب کے لیے بھی قابل قبول ہے اور ہمارے مغرب نواز حکمرانوں کے دل کی آواز ہے۔ اب اس نئے اسلام اور نئی شریعت کی چند جھلکیاں دیکھئے:
1. کتاب و سنت (اور اجماع و قیاس) کو شریعت کے ماخذ و مصادر ماننے کی بجائے منسوخ اور تحریف شدہ بائبل، قدیم صحائف اور فطرت (Nature) کوبھی شریعت کے ماخذ و مصادر قرار دیا گیا ہے ۔ (ص۴۵،۴۷)
2. مسلمہ دینی اصطلاحات کا مفہوم بدل دیا گیا ہے۔کتاب سے مراد قرآنِ مجید ہی نہیں بلکہ اس سے توریت، زبور، انجیل اور تمام قدیم الہامی کتب وصحائف کا سلسلہ مراد ہے۔ (ص ۴۳،۴۴،۴۵،۱۵۱،۱۵۲،۱۵۳)
سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال یا تقریرات نہیں ہے بلکہ اس سے مراد دین ابراہیمی کی روایت ہے ۔(ص۱۴،۴۶)
3. قرآنِ مجید کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے، باقی سب قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں ۔ (ص۲۹،۳۲)
4. سنت قرآن سے مقدم ہے۔ (ص۴۷)
5. سنت صرف ستائیس (۲۷) اعمال کا نام ہے۔ (ص۱۴)
6. قرآن کی طرح سنت کے ثبوت کیلئے بھی اجماع اور عملی تواتر کا ہونا شرط ہے۔ (ص۱۴)
7. حدیث سے کوئی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔ (۱۵،۶۱)
8. معروف اور منکر کا تعین اسلامی شریعت نہیں کرتی بلکہ انسانی فطرت کرتی ہے۔ (ص۴۵،۲۰۲،۲۰۳)