کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 105
کیا گیا ہے کہ قرآن میں صرف یہی دس اعلیٰ انسانی اوصاف یعنی اسلام، ایمان، قنوت، صدق، صبر، خشوع، روزہ، حفظ ِفروج اور ذکر ِکثیر بیان ہوئے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں ان اوصاف کے علاوہ اور بھی بہت سے اعلیٰ اوصاف مذکور ہوئے ہیں جیسے تقویٰ، توکل، احسان اور عدل و انصاف (القِسط) وغیرہ۔
3. قانون عبادات میں جہاں طہارت سے متعلق مسائل مثلاً جنابت، حیض و نفاس اور وضو وغسل کا ذکر ملتا ہے وہاں پاک اورناپاک پانی کے مسائل بیان نہیں کیے گئے۔
4. ایمانیات کے بعد عبادات کا ذکر مناسب تھا، کیونکہ دین اسلام میں ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا حکم نماز ہی کا ہے جیساکہ خود اس کتاب کے صفحہ ۴۸۹ پر لکھا ہے مگر اسی کتاب میں ایمانیات کے بعد اخلاقیات کاذکر ملتا ہے اور اس کے بعد عبادات کی باری آئی ہے۔
5. قانونِ معاشرت میں جہاں طلاق اور اس کی بعض اقسام جیسے اِیلاء اور ظہار کو بیان کیا گیا ہے، وہاں خلع کاذکر نہیں ہے۔
6. ’خورد و نوش‘ کی چیزوں کے عنوان کو قانونِ معیشت میں ذکر کرنے کی بجائے اسے آخر میں نجانے الگ کیوں بیان کیا گیاہے۔ جب کہ ہبہ اور وقف کے مسائل نہ تو قانونِ معیشت میں بیان ہوئے ہیں اورنہ الگ کہیں ان کا ذکر ملتا ہے۔
7. کتاب میں اسلامی احکامات و تعلیمات کو جابجا ’قوانین‘ کے نام سے پیش کیاگیا ہے جیسے قانونِ عبادات وغیرہ۔ حالانکہ قانون اسے کہتے ہیں جس میں جرم اورسزا کا ذکر ہو۔ لیکن قریباً ۱۵۰صفحات پر پھیلے ہوئے ’قانونِ عبادات‘ کے باب میں کہیں بھی جرم و سزا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی ’عبادت‘کا حکم تو سمجھ میں آتاہے مگر ’عبادت کا قانون‘ ناقابل فہم چیز ہے۔ شاید مصنف موصوف کے ذہن میں یہ بات ہو کہ جس طرح دنیامیں قوانین آئے دن بدلتے رہتے ہیں ، اسی طرح اسلام کے بنیادی احکام بھی موم کی ناک ہے جسے کسی وقت بھی کسی طرف موڑا اوربدلا جاسکتا ہے۔