کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 104
Going Child) دین اسلام کے مطالعہ و تحقیق کا کتنا اہل ہو سکتا ہے؟ ویسے مصنف موصوف سے تو یہ بھی بعید نہ تھا اگر وہ یہ دعویٰ کردیتے کہ حالت ِجنینی میں بھی اُن کا زیادہ وقت دین اسلام ہی کے مطالعہ و تحقیق میں بسر ہوتا تھا، کیونکہ اگر دنیا میں کوئی مادر زاد ولی اللہ ہوسکتا ہے تو کیا مادر زاد عالم دین نہیں ہوسکتا۔ فاعتبروا یااولی الابصار ! کتاب کے مندرجات سب سے پہلے ایک مختصر ’دیباچہ‘ ہے۔ پھر ’اُصول و مبادی‘ کا عنوان ہے جس کے تحت تین مضامین: مبادئ تدبر ِقرآن، مبادئ تدبر ِسنت اور مبادئ تدبر ِحدیث لکھے گئے ہیں ۔اس کے بعد کتاب کے پہلے حصے کا آغاز الحکمۃ کے عنوان سے ہوتا ہے اور اس میں ’ایمانیات‘ اور ’اخلاقیات‘ پر الگ الگ بحث کی گئی ہے۔کتاب کا دوسرا حصہ الکتاب کہلاتا ہے اور اس کے تحت قانونِ عبادات، قانونِ معاشرت، قانونِ سیاست، قانونِ معیشت، قانونِ دعوت، قانونِ جہاد، حدود وتعزیرات، خورد و نوش، رسوم و آداب اور قسم اور کفارۂ قسم پر تفصیلی بحثیں موجود ہیں ۔ آخر میں ’خاتمہ‘ کے عنوان سے دو صفحے لکھے گئے ہیں اور ’کتابیات‘ کی فہرست دی گئی ہے۔ مصنف موصوف کاتصورِ دین مصنف نے اپنے تصورِ دین کی وضاحت میں قرآنِ مجیدکی آیات سے استشہاد کیا ہے۔ بائبل اور قدیم صحائف کے حوالے دیے ہیں ، احادیث اوربعض تاریخی شواہد پیش کیے ہیں ۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے موقف کے حق میں اپنے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر ’تدبر قرآن‘ سے سینکڑوں کی تعداد میں حوالہ جات درج کیے ہیں ۔ لیکن اس کتاب کے مشمولات کی ترتیب کے حوالے سے بعض چیزیں کھٹکتی ہیں ۔ مثال کے طور پر: 1. ’ایمانیات‘ سے بھی پہلے قرآن و سنت اور حدیث پر غوروتدبر کرنے اور اُن کو سمجھنے کے اُصول و مبادی دیے گئے ہیں حالانکہ ایمان لانے سے قبل کسی شخص کے لیے ایسے فنی اور مشکل اُمور سے واقف ہونا ضروری نہیں ۔ 2. ’اخلاقیات‘ کے باب میں سورۂ احزاب کی آیات ۳۳تا۳۵ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ