کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 102
شعر پڑھا:
ما أمک اجتاحت المنایا کل فؤاد علیک أمّ
’’موت تیری ماں کو بہا نہیں لے گئی۔ مامتا میں ہر دل تیرے لئے ماں ہی ہے‘‘
یہ پہلا بول تھا جو مکے کی سرزمین پر میرے کانوں نے سنا۔ پھر میں نے آگے بڑھنا چاہا مگر والدہ کہنے لگیں :’’ کہاں ؟‘‘ میں نے کہا: گھر چلیں ۔ والدہ نے جواب دیا:’’ ہیہات! کل تو مکے سے فقیر کی صورت گیا تھا اور آج امیر بن کے لوٹا ہے۔ تاکہ اپنے چچیرے بھائیوں پر گھمنڈ کرے!‘‘میں نے کہا: پھر آپ ہی بتائیں کیا کروں ؟ کہنے لگیں :’’ منادی کر دے کہ بھوکے آئیں اورکھائیں ،پیدل آئیں اورسواری لے جائیں ! ننگے آئیں اورکپڑا پہن جائیں ! اس طرح دنیامیں بھی تیر ی آبرو بڑھے گی اورآخرت کا ثواب اپنی جگہ رہے گا!‘‘
میں نے اماں کے حکم پر عمل کیا، اس واقعہ کی شہرت دور دور پھیلی ۔ امام مالک نے بھی سنا اور میری ہمت افزائی کی، کہلا بھیجا ’’ جتنا دے چکا ہوں ، اتنا ہی ہر سال تمہیں بھیجتا رہوں گا!‘‘
مکے میں میرا داخلہ اس حال میں ہوا کہ ایک خچر اورپچاس دینار کے سوا اس دولت میں سے میرے پاس کچھ باقی نہ تھا جو ساتھ آئی تھی۔ راہ میں اتفاق سے کوڑا میرے ہاتھ سے گرپڑا۔ ایک کنیز نے جس کی پیٹھ پر مشک تھی، لپک کے اُٹھا لیا اورمیر ی طرف بڑھایا ۔ میں نے اس کے لئے پانچ دینار نکالے۔ یہ دیکھ کر والدہ نے کہا’’ یہ تو کیا کر رہاہے ؟‘‘ میں نے کہا: ’’ عورت کو انعام دینا چاہتا ہوں ۔ ماں نے کہا: ’’ جوکچھ تیرے پاس ہے ، سب دے دے!‘‘
میں نے یہی کیا اورمکے میں پہلی رات بسر کرنے سے پہلے ہی میں مقروض ہو گیا۔’’لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میرے پاس وہ سب بھیجتے رہے جو مدینے میں اُنہوں نے مجھے دیا تھا۔ گیارہ برس یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر جب امام مالک کا انتقال ہو گیا توحجاز کی سرزمین مجھ پرتنگ ہوگئی اورمیں مصر چلا آیا۔ یہاں خدا نے عبد اللہ بن حکم کو میرے لئے کھڑا کر دیا اور وہ میری تمام ضرورتوں کے کفیل ہو گئے۔
یہ ہے سب میرے سفر کی روداد، اے ربیع تو اسے اچھی طرح سمجھ…!
(’جامع بیان العلم وفضلہ‘ مترجم: مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی: صفحہ ۲۶۴ تا ۲۷۹ طبع ادارۂ اسلامیات، لاہور)