کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 101
ہوجائے گی۔ اگر میں مر گیا تو اس سب کو آپ کے وارث نہ لے سکیں گے بلکہ میرے وارثوں کو مل جائے گا۔ اسی طرح خدا نخواستہ آپ کی وفات ہوگئی ، تو بھی یہ آپ کی وارثوں کا نہیں ، میرا ہوجائے گا!‘‘ یہ سن کر امام مالک مسکرائے اور فرمایا: یہاں بھی علم ہی سے کام لیتے ہو؟میں نے جواب دیا: علم کے استعمال کا اس سے بہتر موقعہ اورکیاہوسکتا ہے! امام مالک نے رات ہی میں تحریر مکمل کر دی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا تقویٰ صبح میں نے نماز جماعت سے پڑھی اورمسجد سے ہم اس حال سے گھر لوٹے کہ میرا ہاتھ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں تھا اورامام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ۔ دروازے پر کیا دیکھتاہوں کہ خراسانی گھوڑے اورمصر ی خچر کھڑے ہیں ، گھوڑوں کی کونچیں ،کیا بتاؤں کیسی حسین تھیں کہ میرے منہ سے نکل گیا: ’’ ایسے خوبصورت پاؤں تو میں نے کبھی دیکھے نہیں !‘‘ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً جواب دیا: ’’ یہ سب سواریاں بھی تمہارے لئے ہدیہ ہیں !‘‘ میں نے عرض کیا: ’’ کم سے کم ایک جانور تو اپنے لئے رہنے دیجئے۔ اس پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا ’’ مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ اس زمین کو میری سواری اپنی ٹاپوں سے روندے جس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں !‘‘ یہ سن کر مجھے یقین ہوگیا کہ دولت کی اس بہتات میں بھی امام مالک کا تقویٰ بدستور باقی ہے! وطن کو واپسی تین دن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے گھر قیام رہا۔ پھر میں مکہ کو روانہ ہوگیا، مگر اس حال سے کہ خدا کی بخشی ہوئی خیر وبرکت اورمال ومتاع سے بوجھ آگے آگے جار ہے تھے۔ میں نے ایک آدمی پہلے سے مکے بھیج دیا تھا کہ واپسی کی خبر پہنچا دے۔ اسی لئے جب حدودِ حرم پر پہنچا تو بوڑھی والدہ کچھ عورتوں کے ساتھ دکھائی دیں ۔ والدہ نے مجھے گلے لگایا۔ پھر ایک اور بڑھیا نے یہی کہا۔ میں اس بی بی سے مانوس تھا اور اسے خالہ کہا کرتا تھا ۔ بڑھیا نے مجھے چمٹاتے ہوئے یہ