کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 100
کہاں سے ملا۔‘‘ جاہل نے جواب دیا:’’ میری بغل میں ایک نوجوان بیٹھا تھا اور وہی مجھے ہر مسئلے کا جواب بتا رہا تھا!‘‘ اب تو امام مالک نے میری طرف گردن پھیری دوسروں کی گردنیں بھی اُٹھ گئیں اور امام مالک نے اس جاہل سے کہا: جاؤ اورنوجوان کو میرے پاس بھیج دو۔ ‘‘ میں امام مالک کے پاس پہنچا اور اسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے جاہل اٹھا تھا ۔ وہ بڑے غور سے مجھے دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا ’’شافعی ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا ، جی ہاں شافعی ہوں ! امام مالک نے مجھے گھسیٹ کر سینے سے لگایا۔ پھر کرسی سے اُتر پڑے اورکہا:’’ علم کا جو باب ہم شروع کر چکے ہیں ، تم اسے پورا کرو۔‘‘ میں نے حکم کی تعمیل کی اورجراحِ عمد کے چار سو مسئلے پیش کئے، مگر کوئی بھی جواب نہ دے سکا ! امام مالک کی سیر چشمی اب سورج ڈوب ہوچکا تھا، ہم نے مغرب کی نماز پڑھی اور امام مالک نے میر ی طرف پیٹھ ٹھونکی ۔ پھر اپنے گھر لے گئے ، پرانے کھنڈر کی جگہ اب نئی عمارت کھڑی تھی۔ میں بے اختیار رونے لگا۔ یہ دیکھ کر امام مالک نے کہا: ’’ ابوعبد اللہ! تم روتے کیوں ہو؟ شاید سمجھ رہے ہو کہ میں نے دنیا کے چلتے آخرت تج دی ہے!‘‘ میں نے جواب دیا:’’ جی ہاں یہی اندیشہ دل میں پیدا ہوا تھا۔‘‘ کہنے لگے: ’’ تمہارا دل مطمئن رہے ! تمہاری آ نکھیں ٹھنڈی ہوں ! یہ کچھ جو دیکھ رہے ہو ہدیہ ہے خراسان سے، مصر سے، دنیا کے دور دور گوشوں سے ہدیوں پر ہدیے چلے آرہے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرمالیتے تھے اورصدقہ ردّ کر دیتے تھے۔ میرے پاس اس وقت خراسان اورمصر کے اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑوں کے تین سو خلعت موجود ہیں ۔ غلام بھی اتنے ہی ہیں اور معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اب یہ سب میری طرف سے تمہارے لئے ہدیہ ہے! صندوقوں میں پانچ ہزار دینار رکھے ہیں ، اس کی سالانہ زکوٰۃ نکالتا ہوں ۔ اس میں سے بھی آدھی رقم تمہاری ہے!‘‘ میں نے کہا:’’ دیکھئے، آپ کے بھی وارث موجود ہیں اور میرے بھی وارث زندہ ہیں ۔ آپ نے جو کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے ، اس کی تحریر ہوجانا چاہئے۔ تحریر سے میری ملکیت مسلم