کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 10
پربمباری اور میزائلوں کی بارش انسانیت کے خلاف جس قدر مکروہ جرم ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں ۔ مگر امریکی حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وہ امریکی ساختہ ایف سولہ طیاروں کی غزہ کے رہائشی علاقوں ، مسجدوں ، تعلیم گاہوں اوردفاتر پر وحشیانہ بمباری کو اسرائیل کی جانب سے اپنے دفاع کے حق کا استعمال قرار دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے خانہ ساز راکٹوں اوربمبوں سے اپنے بچاؤ کے لئے اسرائیل ان کاروائیوں پر مجبور ہے۔ مگر خود اسرائیل کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو اسرائیلی حکمرانوں کو برملا انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہیں ۔ مثلا اسرائیل کے معروف روزنامے ہارنز غزہ میں آپریشن ’سررینز‘ کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’ہم غزہ پر گرما کی جو بارشیں برسارہے ہیں ، وہ اندھا دھند ہی نہیں ہیں ،سب سے پہلی اوراہم بات یہ ہے کہ وہ قطعی ناجائز ہیں ۔ ساڑھے سات لاکھ لوگوں کو بجلی سے محروم کردینا غیر قانونی ہے۔ بیس ہزار افراد کو اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کردینا کسی صورت جائز نہیں ۔ ان کی بستیوں کو بھوتوں کے مسکن بنا دینا کسی قانون کی رو سے درست نہیں ۔ شام کے حدود میں مداخلت صریحاً بے جواز ہے۔ فلسطین کی آدھی حکومت اورچوتھائی پارلیمنٹ کو اغوا کرلینا انصاف کے سراسر منافی ہے۔ ایسے اقدامات کرنے والی ریاست اورکسی دہشت گرد تنظیم میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘
سچائی اپنے آپ کو منوا کر رہتی ہے۔ اسرائیل ہی کے ایک معروف روزنامے کا یہ تسلیم کرناکہ صہیونی حکمرانوں نے فلسطین کے خلاف اپنے سراسر ناجائز رویے سے ثابت کردیا ہے کہ ان کی حکومت دراصل ایک دہشت گرد تنظیم ہے ، اسی سچائی کا اظہار ہے۔ بلاشبہ اسرائیل روزِ اوّل سے ایک دہشت گرد ریاست ہے ۔اس کی بنیاد ہی ظلم اوربے انصافی پررکھی گئی ہے۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر اس کا قیام ہی انصاف کی کھلی پامالی ہے۔ پھر اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے کے لئے اس نے اپنی ابتدا ہی سے دہشت گردی کو تکنیک کے طور پر اپنا رکھا ہے۔
اس سلسلے کا آغاز۱۹۴۸ء میں فلسطینی بستی دیریاسین میں قتل وغارت گری سے کیا گیا۔ اس کاروائی کامقصد فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرکے ان کے گھروں سے نکال دینا تھا تاکہ ان