کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 99
ان کے دروازے پرلٹکے ہوئے پردے پر تصویریں تھیں ۔ میں نے وہاں موجود اُمّ المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ربیب حضرت عبیداللہ سے دریافت کیا کہ حضرت زیدبن خالد جہنی نے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہم سے یہ بیان کیا تھا، پھر یہ تصویروں والا پردہ کیوں لٹکا ہوا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا تم نے حضرت زید بن خالدرضی اللہ عنہ سے مذکورہ ارشادِ نبوی سنتے وقت یہ جملہ نہیں سنا تھاکہ إلا الرقم في الثوب یعنی وہ تصویر جو کپڑے میں نقش ہو، وہ ممانعت سے مستثنیٰ ہے۔
اسی طرح ترمذی شریف میں روایت ہے کہ حضرت سہل بن سعد، حضرت ابوطلحہ انصاری کی بیمار پرسی کے لیے گئے تو اُنہوں نے وہاں موجود ایک صاحب سے کہا کہ ان کے نیچے جو گدا بچھا ہوا ہے، اسے وہ نکال دے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ اس میں تصویریں ہیں ۔ حضرت سہل نے فرمایا کہ کیا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کی حرمت بیان کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا تھا کہ إلا الرقم في الثوب کہ کپڑے پر نقش تصویر اس سے مستثنیٰ ہے؟ توحضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو تھا، مگر میں اپنے لیے زیادہ بہتر صورت پسند کر تاہوں ۔
بخاری شریف کی مذکورہ روایت کے حوالہ سے حاشیہ میں حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں مختلف فقہاے کرام کے اقوال ومذاہب نقل کیے ہیں اور قاضی ابن العربی رحمہ اللہ کایہ تجزیہ بھی نقل کیا ہے کہ تصویروں کے بارے میں احکام کا خلاصہ یہ ہے کہ
جسم رکھنے والی صورتیں یعنی مجسّمے تو اُمت کے اجماع کی رو سے حرام ہیں ، لیکن کپڑے یا کاغذ پر نقش تصویروں کے بارے میں فقہاے کرام کے چار اقوال ہیں :
ایک یہ کہ وہ بھی مطلقاًممنوع ہیں ، دوسرا یہ کہ مطلقاً جائزہیں ، تیسرایہ کہ اگر تصویر کی ہیئت وشکل باقی ہے تو حرام ہے اور اگر اس کا سر کاٹ دیا گیا ہے اور اجزا الگ الگ کر دیے گئے ہیں تو جائز ہے اور چوتھا قول یہ ہے کہ اگر تصویر کو احترام کے ساتھ رکھا گیا ہے تو ناجائز ہے اور اگر اس کی تعظیم وتکریم نہیں ہوتی تو جائز ہے۔
قاضی ابن العربی رحمہ اللہ نے ان چاروں میں سے تیسرے قول کو ترجیح دی ہے کہ اگر تصویر کی شکل