کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 98
رہے ہیں ۔
اسی طرح اگر ٹی وی اسکرین کو بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ اور سب سے مؤثر طور پر استعمال ہونے والا ایک ہتھیار سمجھ لیا جائے تو میرے خیال میں جواز اور عدم جواز کی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، کیونکہ آج کے دور میں فقہاے کرام کے مسلمہ اُصول الضرورات تبیح المحظورات کے اطلاق کا اس سے زیادہ صحیح محل اور مصداق شاید اور کوئی معاملہ نہ ہو۔
مگر چونکہ ان دنوں علمی حلقوں میں ٹی وی اسکرین کے جواز اور عدم جواز کی بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے اصحابِ علم اور اربابِ فتویٰ اس کے بارے میں اپنا اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کر رہے ہیں ، اس لیے ہم بھی اس حوالے سے چند ’طالب علمانہ گزارشات‘ اہل علم کی خدمت میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں ، اس اُمید پر کہ اصحابِ علم ودانش خالصتاً علمی بنیاد پر اور ملی ضروریات کے پیش نظر ان معروضات کا جائزہ لیں گے اور اس بحث کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
ٹی وی اسکرین کے عدمِ جواز پر اصولی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ تصویر ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کو صراحتاً حرام قرار دیا ہے، اس لیے یہ بھی تصویر کے حکم میں ہے اور ناجائز ہے۔ یہاں دوباتوں پر غور ضروری ہے: ایک یہ کہ تصویر کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور دوسری یہ کہ کیا ٹی وی اسکرین پر دیکھی جانے والی انسانوں کی نقل وحرکت واقعتا تصویرکے حکم میں ہے؟
1. جہاں تک تصویر کامسئلہ ہے، اس میں کوئی کلام نہیں کہ تصویر حرام ہے اور اُمت کے اہل علم کا کوئی طبقہ بھی اُصولی طور پر اس کے جواز کاقائل نہیں ہے، لیکن کیا تصویر کی اس کی حرمت کا اطلاق تصویر کی تمام صورتوں پر ہوتا ہے؟ اس میں بہرحال اختلاف موجود ہے اور یہ اختلاف حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے چلا آ رہا ہے۔
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد روایت کیا کہ جس گھر میں تصویر ہو، اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے، لیکن بسر بن سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے اور ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تو