کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 97
چند سال قبل ہم نے بھی ’ورلڈ اسلامک فورم‘ کے تحت اس کے لیے کوشش کی تھی کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور تحفظ ودفاع کے لیے عالمی سطح پر کوئی ٹی وی چینل قائم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے لندن میں متعدد سیمینار منعقد کیے اور مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور راقم الحروف نے متعدد دیگر علماے کرام کے ساتھ مل کر اس کے لیے لابنگ کی، باقاعدہ اس کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرائی اور مسلسل مہم چلائی، مگر ہم وسائل اورانتظامات کے تقاضے پورے نہ کر سکنے کی وجہ سے اس میں کامیاب نہ ہوئے، اس لیے اب اگر مولانا عبدالحفیظ مکی اور ان کے رفقا اس کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمیں اس پر بے حد خوشی ہے اور ہم ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں ۔ آمین یاربّ العالمین! جن دنوں ہم ’ورلڈ اسلامک فورم‘ کے تحت اس کے لیے کوشش کر رہے تھے تو بہت سے دوستوں نے ٹی وی کے جواز اور عدم جواز کے حوالہ سے سوال اُٹھایا تھا مگر اس وقت ہم نے یہ عرض کیا کہ جہاں اجتماعی ضروریات کی بات ہو اور خاص طور پر حالت ِجنگ کا مرحلہ ہو تو ضروریات کا ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جہاں فقہاے کرام الضرورات تبیح المحظورات کے اُصول کے تحت جواز اور عدمِ جواز سے چشم پوشی کر لیتے ہیں جس کی ایک واضح مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ اسلام نے جہاد وقتال اور جنگ کے جو اُصول وضوابط اور احکام وقواعد وضع کیے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جو واضح ہدایات دی ہیں ، ان کی روسے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کا کوئی جواز نہیں بنتا اور بلاتفریق پوری آبادی کو تہس نہس کر دینے والے یہ ہتھیار اسلام کے اُصول جنگ سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے، لیکن چونکہ یہ ہتھیار دشمن کے پاس موجود ہے اور ان سے بچاؤ کے لیے ہمارے پاس بھی اس قسم کے ہتھیاروں کی موجودگی ضروری ہے، اس لیے پوری دنیاے اسلام جواز اور عدمِ جواز کی بحث میں پڑے بغیر ایٹمی قوت کو بطورِ ہتھیار اختیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور کہیں سے بھی یہ آواز نہیں اُٹھ رہی کہ چونکہ ایٹمی ہتھیار اسلام کے اُصولِ حرب اور جناب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات کے معیار پر پورے نہیں اُترتے، اس لیے ان کے حصول کی کوشش ترک کر دی جائے بلکہ دینی حلقے عالم اسلام اور مسلم ممالک پر ایٹمی قوت بننے کے لیے زیادہ زور دے