کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 96
نقطہ نظر ابو عمار زاہدالراشدی دینی مقاصد کیلئے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال محدث کے تصویر نمبر کی اشاعت کے بعد بعض اہل علم نے اپنے موقف ارسال کئے۔ زیر نظر شمارہ میں اس نوعیت کے تین مضامین بالترتیب شائع کئے جارہے ہیں ، جن میں باہم متضاد موقف بھی اختیار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں پیش کردہ بعض دلائل کا تصویر نمبر میں بھی جائزہ لیا جا چکا ہے۔ اس بحث میں جو اہل علم مزید حصہ لینا چاہیں ، ان کے لئے ’محدث‘ کے صفحات حاضر ہیں ۔ چند شماروں میں ان تکمیلی مضامین کی اشاعت کے بعد ان شاء اللہ ان پر ایک جامع تبصرہ پیش کیا جائے گا تاکہ قارئین انتشارِ فکری کی بجائے ایک واضح نتیجہ تک پہنچ سکیں ۔ مدیر مختلف اخبارات میں اے پی پی کے حوالہ سے خبر شائع ہوئی ہے کہ گزشتہ دنوں مکہ مکرمہ میں ’انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ‘ کے سربراہ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں تحفظ ِختم نبوت کے حوالہ سے ٹی وی چینل کے اِجرا کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کے ا نتظامات کی تیاری ہو رہی ہے۔ دینی مقاصد کے لیے ٹی وی چینل کی ضرورت ایک عرصہ سے اس پس منظر میں محسوس کی جا رہی ہے کہ یہ آج کے دور میں اِبلاغ کا سب سے مؤثر اور وسیع ذریعہ ہے اور مسلمانوں اور مغرب کے درمیان نظریاتی اور تہذیبی کشمکش میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل استعمال ہونے والا سب سے زیادہ مؤثر اور خوفناک ہتھیار ہے جس کے ذریعے اسلام کے عقائد واحکام کے خلاف نفرت انگیز مہم دن بدن وسیع ہوتی جا رہی ہے اور مسلمانوں بالخصوص دینی حلقوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ہتھیار کا جواب ہتھیار سے ہی دیا جا سکتا ہے اور جنگ کامسلمہ اُصول ہے کہ دشمن کے پاس جو ہتھیار موجود ہو، اس سے زیادہ مؤثر ہتھیار حاصل کرنا یا کم از کم اس درجے کا ہتھیار مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔