کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 95
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک سے واپسی کے موقع پر فرمایاتھا: ((رجعنا من الجھاد الأصغر إلی الجھاد الأکبر)) (السلسلۃ الضعیفۃ للألباني:۲۴۶۰) ’’ہم جہادِ اصغر (قتال فی سبیل اللہ) سے جہادِ اکبر (جہاد بالنفس) کی طرف واپس لوٹے ہیں ۔‘‘ تو دیکھئے ایسی بے اصل اور موضوع روایت کو غامدی صاحب کس طرح مانتے ہیں ، اس سے اُن کو ’علم یقین‘ بھی حاصل ہوجاتاہے اور پھر اس سے استدلال بھی فرماتے ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس امر میں کوئی شک نہیں کہ قرآن اور حدیث دونوں میں جہاد کا لفظ اپنے لغوی مفہوم میں بھی بکثرت استعمال ہوا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دین کی دعوت و تبلیغ کا آغازکیا تو اُسے بھی جہاد کہا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سربراہِ ریاست کی حیثیت سے یہود ونصاریٰ اور دوسرے مشرکینِ عرب کو دین کی دعوت پیش کی تو اسے بھی جہادکا عنوان دیا۔ ایک غزوہ سے واپسی پر اپنے ساتھیوں کو عام زندگی میں تقویٰ اور راست روی کی روش اختیار کرنے کی نصیحت کی تو اسے ’قتال فی سبیل اللہ‘ کے مقابلے میں ’جہادِ اکبر‘ قرار دیا۔ چنانچہ ان معنوں میں دین کی سربلندی کے لئے کئے گئے کسی بھی کام کو ’جہاد‘ کہا گیا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو:ماہنامہ ’اشراق‘ شمارہ دسمبر ۱۹۹۳ء، ص۱۸) یہ ہے غامدی صاحب کی احادیث کے بارے میں ’تحقیقِ انیق‘ اور ان پر تدبر کرنے کی اصل حقیقت، جس کاوہ ڈھنڈورا پیٹتے پھر رہے ہیں ۔ اس مقام پر فارسی کا ایک قدیم شعر بہ ادنیٰ تصرف پیش کرنے کو جی چاہتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے باکمال ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو وہ گائے (کے بچھڑے) کو خدا مان لیتے ہیں مگر دوسری جانب نوح علیہ السلام کو نبی تسلیم نہیں کرتے۔ ؎ گاؤ را داری تو باور در خدائی، غامدی! نوح علیہ السلام را باور نداری از پئے پیغمبری! ……٭٭٭…… (جاری ہے)