کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 94
اور اسے چھوڑنے سے وہ کافر اور مرتد ہوجاتا ہے۔ یہ کلمہ ہمارے دین کی اساس ہے مگر اس کی بنا بھی صرف اخبارِ آحاد پر قائم ہے۔ خود قرآنِ مجید ہمیں اخبارِ آحاد کی بنیاد پر شرعی فیصلے کرنے کا مجاز قرار دیتاہے۔ وہ ہمیں ایک، دو یا چار معتبر اور عادل (ذَوَا عَدْلٍ) مسلمانوں کی خبر پر یقین کرنے کا پابند کرتا ہے اور ان کی گواہی پر حدود جاری کرنے کا حکم دیتا ہے جس کے نتیجے میں شرعی طو رپر کسی مجرم کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے ۔ کسی کو پھانسی پرچڑھا کر قتل کیا جاسکتا اور کسی کی پیٹھ پرکوڑے برسائے جاسکتے ہیں ۔ پھر جب قرآنِ مجید نے اپنے نظامِ عدل و انصاف کی بنیاد غیرمتواتر شہادتوں اور اخبارِ آحاد پررکھی ہے تو قرآن کے مقابلے میں کوئی مسلمان یہ کہنے کی جسارت کیسے کرسکتا ہے کہ کسی حدیث کو حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم یا حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کے لئے تواتر کی شرط ضروری ہے اور یہ کہ ایک، دو یا چار معتبر اور عادل راویوں کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ ان سے اُسے ’علم یقین‘ حاصل نہیں ہوپاتا۔ جب کہ اسلام میں صرف ایک معتبر اور عادل شخص (خواہ وہ مرد ہو یا عورت)کی شہادت پر رؤیت ہلال ثابت ہوجاتی ہے جس کے بعد شرعی طور پر مسلمانوں کے لئے دوسرے دن روزہ رکھنا یا نہ رکھنا لازم ہوجاتا ہے۔ اخبارِ آحاد میں سے ایک متفق علیہ غریب حدیث ہے کہ (( اِنما الأعمال بالنیات…)) ’’ اعما ل کا دار ومدار نیت پر ہے۔‘‘(صحیح بخاری:۱) ہرمسلمان اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف ہے۔ اس حدیث کے صرف ایک ہی راوی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ، لیکن ساری اُمت اسے صحیح اوردرست مانتی ہے اور فقہاے اسلام اس سے مسائل کا استنباط کرتے اور استدلال میں پیش کرتے ہیں ۔ افسوس کہ غامدی صاحب ایک طرف تو حدیث کی اخبار آحاد کے بارے میں تواتر کی شرط لگاتے ہیں اور اس کے پورا نہ ہونے کی صورت میں صحیح احادیث کو ’ناقابل اعتماد‘ اور ’غیریقینی‘ ٹھہرانے لگتے ہیں اور دوسری طرف اگر اُن کو کوئی ضعیف بلکہ موضوع اور من گھڑت روایت بھی مل جائے جو اُن کی خواہش اور ہوائے نفسانی کے مطابق ہو تو اُسے وہ بلا تامل مان لیتے اور اسے دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ چنانچہ درج ذیل حدیث بالاتفاق موضوع ہے کہ