کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 89
نہ بیان ہوئی ہو، آپ کی نسبت سے ہرگز کوئی اہمیت نہ دی جائے۔‘‘
(ملاحظہ ہو غامدی صاحب کی کتاب ’میزان‘: ص ۶۹، طبع اپریل۲۰۰۲ء، لاہور)
تو کیا جو آدمی بخاری اور مسلم کی روایات کونہیں مانتا، وہ ابن خلدون اور طبری کی کتب تاریخ کو مان لے گا؟ جو شخص اِجماعِ قطعی سے ثابت شرعی احکام کو تسلیم نہیں کرتا ، وہ طبقاتِ ابن سعد اور تاریخ مسعودی کو کیسے تسلیم کرلے گا؟
قارئین کرام ! میں اصل موضوع پر بحث کرنے سے پہلے تمہید کے طور پر غامدی صاحب کے اندازِبیان کے دجل وفریب کاپردہ چاک کررہا ہوں تو اس سے میرا مقصود صرف یہ ہے کہ میں آپ کو اس شخص کے ’طریق واردات‘ سے آگاہ کردوں جو ’’زخرف القول غرورًا‘‘ کے مصداق اپنے مخاطب کو فریب دینے کا عادی ہے۔
اب ہم اصل بحث کی طرف آتے ہیں ۔ غامدی صاحب کادعویٰ ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (احادیث) کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔‘‘
ہمارا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو احادیث سننے، ان کو حفظ کرنے اور ان کی کتابت و تحریر کرنے کی تاکیدفرمائی اورایسا کرنے والوں کے حق میں دعا فرمائی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے کام لیتے ہوئے احادیث کی حفاظت اور ان کی تبلیغ و اشاعت کا اہتمام فرمایا۔
پھر چونکہ احادیث کا زیادہ حصہ عمل سے متعلق تھا۔اس لئے ﴿ا طِیْعُوْا الرَّسُوْلَ﴾ ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔‘‘ کے قرآنی حکم کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام کرتے دیکھا، اُسے ویسے ہی کرنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ نسل در نسل آگے چلتا گیا۔ اس طرح فعلی احادیث کاکثیر ذخیرہ عملی طور پر اُمت کو منتقل ہوگیا جو آج تک اُمت ِمسلمہ میں جاری وساری ہے۔ حدیث کی حفاظت اور اس کی نشرواشاعت کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات درج ذیل ہیں :
1. سنن ابو داؤد (کتاب العلم) میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے، وہ بیان