کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 88
دیتے ہیں کہ ’’ایک خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق البتہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (حدیث کو) دوسروں تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی۔‘‘ پھر چونکہ اس حوالے سے بھی اُن کے اپنے مذکورہ بیان کی تردیدکا پہلو نکلتا تھا، اس لئے پھر پینترا بدل کرآگے عبارت میں یہ اضافہ کردیا کہ ’’لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔‘‘ غامدی صاحب نے ان الفاظ کا اضافہ کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم الشان خطبہ حجۃ الوداع کی تعلیمات اور اَحکام کی اہمیت گھٹانے کی سعی ٔ نامراد فرمائی ہے۔ وہ خطبہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع کے سامنے دیا جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا منشور (Charter) ہے اور جو دین اسلام کامکمل پیغام ہے۔ غامدی صاحب اُسے یہ کہہ کر ٹھکرا رہے ہیں کہ ’’لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔‘‘ آخر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اورفرامین و احکام کی یہی حیثیت ہے کہ ان کو مذکورہ گستاخانہ الفاظ میں بیان کیا جائے؟ 4. مذکورہ حوالے کے ذریعے غامدی صاحب نے دوسروں کو چوتھا یہ مغالطٰہ اور فریب دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ آگے اسی فٹ نوٹ میں فرماتے ہیں کہ ’’اس کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی چیز تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور نہیں ۔‘‘ ان الفاظ سے غامدی صاحب دوسروں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ کسی بھی بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں جو تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخص بخاری اور مسلم کی متفق علیہ اور صحیح احادیث کو کچھ اہمیت نہ دیتا ہو اور اُن کو ماننے کے لئے ہرگز آمادہ نہ ہو، وہ ’تاریخ کے کسی مستند ماخذ‘ کو کیسے مان کر دے گا؟ جس آدمی کا نظریہ یہ ہو کہ ’’کسی چیز کو بھی خواہ وہ حدیث کی اُمہاتِ کتب بخاری و مسلم اور مؤطا امام مالک رحمہ اللہ ہی میں کیوں