کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 86
ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔٭ دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘ (میزان: ص۶۸، طبع اپریل ۲۰۰۲ء، لاہور) ٭ایک خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق البتہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسروں تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی، لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔ اسکے علاوہ کسی چیز کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی چیز تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور نہیں ۔ ذیل میں ہم سب سے پہلے غامدی صاحب کی اس پُرفریب اور مغالطہ انگیز تحریر کا تجزیہ کریں گے اور پھر اس پرجامع تبصرہ کیاجائے گا۔ مغالطہ انگیزی اور فریب دہی 1. اہل علم جانتے ہیں کہ حدیث کے اصطلاحی مفہوم میں خبر متواتر (اخبارِ متواترہ) بھی شامل ہوتی ہے، لیکن مذکورہ عبارت کے ذریعے غامدی صاحب نے اخبارِ متواترہ کو حدیث کے اصطلاحی مفہوم سے نکالنے اور اسے محض اخبارِ آحاد کے مفہوم میں محدود کردینے کے لئے لکھ دیا ہے کہ اس سے صرف وہی روایتیں مراد ہیں : ’’جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پرنقل ہوئی ہیں ۔‘‘ اس طرح غامدی صاحب نے اپنے قارئین کو دھوکا اور فریب دینے کے لئے اصطلاح تو محدثین سے لی ہے مگر اُسے اپنے ذاتی معنی پہنا کر پیش کردیا ہے۔ غامدی صاحب اس بات کے عادی ہیں کہ وہ معروف دینی اور شرعی اصطلاحیں تو علماے اسلام سے لیتے ہیں مگر ان اصطلاحوں کے مفاہیم بدل کر اُنہیں اپنے من پسند معنی پہناتے ہیں ۔ یہی حرکت انہوں نے ’سنت‘ کی دینی اصطلاح کے بارے میں بھی کی ہے اور اس کے اصطلاحی مفہوم کو چھوڑ کر اپنا یہ اختراعی مفہوم مراد لے لیا ہے کہ ’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اوراس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایاہے۔‘‘ (میزان: ص۱۰، طبع اپریل ۲۰۰۲ء، لاہور)