کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 85
حدیث وسنت محمد رفیق چودھری سلسلہ سوم جاوید احمد غامدی اور انکارِ حدیث فاضل مقالہ نگار نے چند برس قبل محدث میں ’جاوید غامدی کے منحرف افکار‘ سے اُمت کو آگاہ کرنے کے لئے ایک علمی سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس سلسلۂ مضامین کے ساتھ ساتھ ان کے غلط اَفکار پر اُنہوں نے شعر وادب کی زبان میں بھی کڑی تنقید کی۔ یہ سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ محدث میں جاری وساری تھا کہ چند ماہ بیشتر فاضل محقق ایک ٹریفک حادثہ کا شکار ہوگئے اورتعطل پیدا ہوگیا۔ اس وقت تک یہ واحد سلسلہ مضامین ہے جس میں غامدی صاحب کے مختلف غلط افکار کا انہی کے دیگر ارشادات کی روشنی میں جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ اللہ کا بے پایاں شکر واحسان ہے کہ مولانا محمد رفیق چودھری چند ماہ بستر علالت پر گزارنے کے بعد صحت یاب ہوچکے ہیں اور اب دوبارہ خدمت ِدین کے لئے میدانِ علم وتحقیق میں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مبارک مساعی کو قبول ومنظور فرمائے اور اُمت ِمسلمہ کو نت نئے فتنوں اور انحرافات سے عافیت نصیب فرمائے۔ زیر نظر مضمون غامدی صاحب کے تصورِ حدیث پر لکھے گئے مضامین کا تیسرا نقش ہے، یہ مضامین اپنی جگہ مستقل افادیت بھی رکھتے ہیں ، البتہسابقہ مضامین کو پڑھنے کے لئے محدث کے شمارہ جنوری اور فروری ۲۰۰۸ء کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ان مضامین پر مشتمل ایک مستقل کتاب ’غامدی مذہب کیا ہے؟‘ کے نام سے مستقل طورپر دوبار شائع ہوکر شائقین سے داد وصول کرچکی ہے۔ ح م غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ دین کا حصہ نہیں ، یہ دین سے الگ کوئی غیر اہم شے ہے۔ دین کا کوئی عقیدہ اور عمل اس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر احادیث کی کچھ اہمیت ہوتی اور یہ بھی دین کا حصہ ہوتیں تو ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے خود رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی اہتمام کیوں نہیں فرمایا؟ چنانچہ جاوید غامدی اپنی کتاب ’میزان‘ میں ’مبادئ تدبر حدیث‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں ’حدیث‘ کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔