کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 84
کے ٹوٹے پھوٹے خاندانی ڈھانچے کے قریب تر لے آئے۔ نظریاتی کونسل کی مذکورہ بالا سفارشات کازیادہ ترتعلق خاندانی نظام سے ہی ہے جس میں ایسی ’اصلاحات‘ تجویز کی گئی ہیں جو دنیا میں غالب نظامِ کفر سے ممکنہ مماثلت حاصل کرنے کا مذموم ہدف رکھتی ہیں ۔ مزید برآں مرد وعورت کے آزادانہ اختلاط کی ممانعت اور دونوں کو اپنے اپنے دائرۂ کار میں کام کرنے کی تلقین بھی اسلام کے نظامِ معاشرت کا اساسی تصور ہے۔ ایسے ہی ہجری کیلنڈر کو عیسوی کیلنڈر کی طرح خود ساختہ اُصولوں پر اُستوا رکرنا بھی شریعت کے احکاماتِ صریحہ میں مداخلت ہے۔یاد رہے کہ تقویم بھی مسلم نظامِ معاشرت کا ایک مرکزی تشخص ہے۔ کونسل کی اکثر سفارشات اسی بچے کچھے مسلم نظامِ معاشرت کی مزعومہ اصلاح سے تعلق رکھتی ہیں ۔ الغرض مسلمانوں کے خاندانی نظام میں اہل مغرب کے تصورات کو پروان چڑھانا اور معاشرتی نظام میں سیکولر نظریات کو فروغ دینا نظریاتی کونسل کا ایسا سیاہ کارنامہ ہے جو اس کے مقام ومرتبہ پر کسی بد نما دھبے سے کم نہیں ہے! اوپر ذکر کردہ دس میں سے پانچ سفارشات کے مختصر جائزہ سے واضح طورپر یہ علم ہوجاتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارشات شریعت ِاسلامیہ میں تحریف اور دخل اندازی کی موجب ہیں ۔ یہ سفارشا ت اسلامی نظریاتی کونسل کی بجائے کسی اِلحادی ادارے یا فرد سے صادر ہوتیں تو مناسب ہوتا۔ ان حالات میں حکومت ِوقت کا فرض ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ایسے مغرب نواز سکالروں سے پاک کرکے، شرعِ متین کی حقیقی ترجمانی کرنے والے اہل علم کو یہاں متعین کرے، تاکہ ماضی کی طرح یہ ادارہ قوم اور حکومت کو شرعی اُمورمیں درست رہنمائی دے سکے۔ ان سفارشات کے مذکورہ بالا جائزہ کی روشنی میں پاکستان بھر کے دینی حلقوں اور اہل علم کا یہ مطالبہ سوفیصد درست ہے کہ کونسل کی تشکیل نو کی جائے، آئینی مطالبے پورے کئے جائیں اور اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک میں اسلام کے نام پر تہذیب ِافرنگ کے فروغ کا مذاق بند کیا جائے۔ (حافظ حسن مدنی)