کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 83
ایک ہی رؤیت ِمکہ مکرمہ کا تابع کردیا جائے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے دنیا بھر میں نمازوں کے اوقات وہی کردیے جائیں جو مکہ مکرمہ کے ہیں تاکہ عالمی وحدت حاصل ہوجائے۔ جبکہ نمازوں اور تہواروں کے اوقات وایام مختلف ہونے میں ، جہاں مظاہر قدرت سورج اور چاند کو معیار ٹھہرایا گیا ہے، وہاں یہ بھی حکمت ہے کہ ہردن اور ہروقت میں دنیا بھر میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا ہوتی رہے او رکرۂ ارضی کا کوئی لمحہ بھی اس دعا و مناجات سے خالی نہ جائے۔ اس موضوع پر راقم کا تفصیلی مضمون جس میں ہر پہلو سے دلائل جمع کردیے گئے، ملاحظہ فرمائیں : ’ہجری تقویم اور مسئلہ رؤیت ِہلال‘ شائع شدہ ’محدث‘: ستمبر ۲۰۰۷ء اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عبادات سے لے کر زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں بے انتہا نظری عقائد وتصورات اور عملی اَحکام و شرائع موجود ہیں ۔ لیکن جمہوریت کے لازمے ’سیکولرزم‘ کو جاری وساری کرنے کے نتیجے میں آج مسلم ممالک میں عملاً اجتماعی، سماجی یا ’معاشرتی اسلام‘ کی بساط تقریباً لپیٹی جا چکی ہے او رعملاً ان جملہ معاشرتی میدانوں میں مغربی نظریات کی کارفرمائی ہی نظر آتی ہے۔مسلمانوں کی بطورِ قوم ذلت کی وجہ بھی مسلم ریاستوں کے اسی ظلم میں پوشیدہ ہے کہ اُنہوں نے ترقی کے نام پر اسلام کے نظامِ سیاست و عدالت، نظامِ معاشرت و معیشت اور نظامِ تعلیم واِبلاغ کو معطل کررکھا ہے۔ جب کسی میدان میں مسلم احکام ونظریات زیر عمل ہی نہ ہوں تو اس قوم کی کامیابی وکامرانی کی اُمید کرنا کارِ عبث ہے۔ ان معاشرتی نظاموں میں سے اکثر مسلم ممالک میں خاندانی نظام ہی ایسا واحد پہلو بچا ہے جس پر آج بھی جزوی طورپرعمل ہورہا ہے۔ اور اسلام پر عمل کرنے کے سبب یہی وہ واحد اجتماعی نظام ہے جس کی بنا پر آج ہم مطمئن وسرخرو ہیں اور اہل مغرب ہم پر رشک کرتے ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کو جس میدان میں بھی حقیقی طور پر نافذ کیا جائے گا،اس میں مسلمان دیگر اقوام کے لئے ایک قابل اتباع نمونہ قرار پائیں گے۔ لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ ایک ایسا خاندانی نظام جو آج ہماری لئے کافی حد تک باعث افتخار ہے، اس میں بھی ہم ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو اس کے جوہر کو ختم کرکے ہمیں مغرب