کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 82
کرنا درست نہیں ۔ صرفکتب ِاحادیث کے عناوین ملاحظہ فرمائیے: جامع ترمذی کا باب : باب ما جاء لکل أہل بلد رؤیتہم صحیح مسلم میں باب بیان أن لکل بلد رؤیتہم وأنہم إذا رأوا الہلال ببلد لا یثبُت حکمہ لما بَعُد منہم صحیح بخاری رحمہ اللہ میں باب لکل بلد رؤیتہم (معروف نسخہ میں یہ باب نہیں ) سنن نسائی رحمہ اللہ میں باب اختلاف أہل الآفاق في الرؤیۃ سنن ابوداود رحمہ اللہ میں باب إذا رء ي الہلال في بلد قبل الآخرین بلیلۃ صحیح ابن خزیمہ رحمہ اللہ میں باب الدلیل علی أن الواجب علی کل أہل بلد صیام رمضان لرؤیتہم لا لرؤیۃ غیرہم منتقی الاخبار میں باب الہلال إذا رأوہ أہل بلد ہل یلزم بقیۃ البلاد الصوم ( امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے) ’جامع الاصول‘ میں باب اختلاف البلد في الرؤیۃ (علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ ) مصنف ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ میں في القوم یرون الہلال ولا یرون الآخرون امام ترمذی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا باب کے تحت کریب رحمہ اللہ کی روایت کردہ حدیث ِابن عباس رضی اللہ عنہ کو ذکرکرکے فرمایا ہے : ’’ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اور اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔‘‘ سابقہ مسائل کی طرح یہ مسئلہ بھی اُمت ِمسلمہ کا متفقہ اجماعی موقف ہے۔ چنانچہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس پر اجماع ذکر کیا ہے کہ اَندلس اور خراسان کی رؤیت ایک دوسرے کے لئے قطعاً معتبر نہیں ہے۔(الاستذکار: ۱۰/۳۰) علماے احناف میں سے علامہ زیلعی رحمہ اللہ اور علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے اختلافِ مطالع کو معتبر تسلیم کیاہے اور ندوۃ العلما، لکھنؤ کی مجلس تحقیقاتِ شرعیہ نے ۳،۴ مئی ۱۹۶۷ء کو اپنے فیصلہ میں اختلافِ مطالع کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ’’محققین احناف اور علماے اُمت کی تصریحات اور ان کے دلائل کی روشنی میں مجلس کی متفقہ رائے یہ ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطلع معتبر ہے۔‘‘ (جدید فقہی مسائل: ۱/ ۸۹ تا۹۴) گویا بلادِ بعیدہ کی رؤیت کا باہمی اعتبار شریعت ِمطہرہ میں نہیں ہے،کجا یہ کہ دنیا بھر کو ہی