کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 81
بعض میں یہ ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ چنانچہ عملاً ایک ہی حقیقی وقت میں تہوار منعقد کرنے کا نظریہ حقائق سے لاعلمی اورایک جذباتی ڈھکوسلا ہے۔ البتہ اعتباری طورپر ایسا کرنا ممکن ہے، اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ یکم شوال کو ہی دنیا بھر میں عید الفطر ہوتی ہے جس طرح ۲۵/دسمبر کو ہی اوقات کے کئی گھنٹوں کے فرق کے باوجود دنیا بھر میں کرسمس منائی جاتی ہے۔
اس طبعی حقیقت کا اِدراک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وحی کی روشنی میں حاصل تھا، لیکن آج کے ترقی یافتہ اور باشعور ہونے کا دعویٰ کرنے والے اور اس بنا پر اسلام میں تبدیلی کا تقاضا کرنے والے اس سے نابلد ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسیوں فرامین میں روزہ کو چاند کی رؤیت بصری پر منحصر قرار دیا ہے اور اس کو کسی سائنسی حساب پر منعقد نہیں کیا، کیونکہ سائنس لاکھ دعووں کے باوجود آج تک اسلامی تقاضوں کے مطابق درست ہجری تقویم تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال چھپنے والی تمام ڈائریوں میں ہجری تقویم میں لازماً خرابی مشاہدہ میں آتی ہے۔ اگر اس کا کوئی سائنسی نظام وضع کرلیا گیا ہے تو پھر اس کے مطابق چند سال درست طورپر پیش کرنے توبہر حال ضروری ہیں ۔
یہ تو سائنسی حساب پر اکتفا کرنے کا نظریہ ہوا، جس کے خلاف اُمت ِمسلمہ کا قدیم سے بقولِ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اجماع چلا آرہا ہے۔ علاوہ ازیں کونسل کا یہ قرار دینا کہ چاند کی ولادت پر قمری مہینے کا آغاز کیا جائے ، یہ بھی درست نہیں ۔ کیونکہ شرعی اعتبار سے قمری ماہ کا آغاز ولادتِ قمر کی بجائے رؤیت ِقمر سے ہوتا ہے۔ ولادتِ قمر تو محض ایک سائنسی حقیقت ہے جبکہ رؤیت قمرایک روزمرہ معمول ، واضح رہے کہ دین ہردور اور ہرفرد کیلئے ہے نہ کہ صرف سائنسدانوں کے لئے!
جہاں تک مقا م کے لحاظ سے مکہ مکرمہ کورؤیت میں مرکزی حیثیت دینے کی بات ہے تو یہ نظریہ بھی خلافِ اسلام ہے کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کریب رحمہ اللہ سے فرمایا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام کی بجائے اپنی (یعنی مدینہ منورہ کی) رؤیت کا پابند بنایا ہے: ’’ہٰکذا أمرنا رسول اﷲ‘‘ ( صحیح مسلم:۱۸۱۹)
اس موضوع پر مزید احادیث بھی موجود ہیں ، حدیث کی ہرکتاب میں اس موضوع کو زیر بحث لاکر یہی ثابت کیا گیا ہے کہ تمام دنیا تو کجا، عالم اسلام میں بھی ایک دن عید اور تہوار منعقد