کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 80
سے پوری دنیا کے لیے ایک ہجری کیلنڈر بنا دیا جائے اور تمام مذہبی تہوار اسکے مطابق منائے جائیں ۔‘‘
جائزہ:کونسل کی یہ سفارش بھی سراسر فرامینِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصادم ہے۔دراصل کونسل کا مطمع نظر اسلام کی ترجمانی نہیں بلکہ ایسی سفارشات کونسل کے تجدد زدہ اراکین کی مغرب سے مرعوبیت کا برملا اظہار ہے جومغربی میڈیا کے بے جا اعتراضات کا جواب دینے کی اہلیت سے توعاری ہیں ، نتیجتاًاسلام کو توڑ موڑ کر اس کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں ۔
دنیا بھر میں مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کے مذہبی تہوار ایک دن کیوں نہیں ہوتے، ایک قوم ہوتے ہوئے مختلف خطہ ارضی میں عیدین اور رمضان وغیرہ کا آغاز واختتام مختلف کیوں ہوتا ہے؟ دراصل یہ اعتراض بودا اور مغالطہ آمیزہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں تما م مسلمان ایک ہی دن یعنی یکم شوال کو عید الفطر اور ۱۰/ ذی الحجہ کوعید الاضحی مناتے ہیں ۔ جہاں بھی یہ تہوار منائے جاتے ہیں ، وہاں یکم شوال ہی ہوتی ہے۔ اگریہ اعتراض اہل مغرب پر کیا جائے کہ وہ دنیا بھر میں کرسمس اور ایسٹر ایک ہی دن کیوں نہیں مناتے تو یہ زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ بعض ممالک میں کرسمس ہجری تقویم کی ایک تاریخ کو ہوتی ہے اور بعض میں اس سے اگلی یا پچھلی تاریخ کو۔ دراصل بنیادی سوال یہ ہے کہ بنیادی، فطری اور سائنسی تقویم کس کو قرار دیا جائے؟ قرآنِ کریم، فرامینِ نبویہ، تاریخ اقوام اورزمینی حقائق کی رو سے یہ حیثیت صرف ہجری تقویم کو حاصل ہے اور وہی حقیقی مطلوب تقویم الٰہی ہے۔ موضوع تفصیل طلب ہے، اس لئے راقم کے مستقل مضمون کی طرف رجوع فرمائیے۔
پھر یہ امر واقعہ ہے کہ سائنسی اعتبار سے بھی دنیا بھر میں نہ تو ایک ہی حقیقی وقت میں عید ہوسکتی ہے اور نہ ہی کرسمس۔بلکہ اعتباری یا فرضی طورپر ہی اُنہیں ایک وقت میں منعقد کرنا ممکن ہے ۔ چنانچہ پاکستان میں جس وقت (۷ بجے شام) چاند طلوع ہوتا اور نئے رات و دن کا آغازہوتا ہے، دنیا کے بعض خطوں (میکسیکو) میں اس وقت صبح کے ۱۰ بج رہے ہوتے ہیں ۔ اس لحاظ سے فوری اطلاع مل جانے کے بعد بھی نہ تو وہاں روزہ رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی نمازِ عید پڑھی جاسکتی ہے۔ غرض طبعی حقائق کی روشنی میں یہ امر ناممکن ہے کہ حقیقی طورپر ایک ہی دن تہوار منائے جاسکیں ۔ اسی طرح دنیا بھر میں بعض ممالک میں کرسمس کا آغاز ہورہا ہوتا ہے اور