کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 79
’’ کسی عورت کو جائز نہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتی ہو کہ وہ ایسی حالت میں ایک دن رات کا سفر کرے کہ اس کے ساتھ محرم مرد موجو دنہ ہو۔‘‘
2. لا تسافر المرأۃ إلا مع ذي محرم ولا یدخل علیہا رجل إلا ومعہا محرم،فقال رجل: یا رسول اﷲ! إني أرید أن أَخرج في جیش کذا وکذا، وامرأتي ترید الحج۔ فقال : اُخرج معہا )) (صحیح بخاری: ۱۸۶۸)
’’ کوئی بھی عورت اپنے محرم مرد کے بغیر سفر ہرگز نہ کرے۔ اور اس کے پاس کوئی غیرمرد نہ آئے اِلا یہ کہ عورت کے ساتھ اس کا محرم مرد بھی موجود ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ میں فلاں فلاں لشکر میں جانا چاہتا ہوں اور میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے، تو آپ نے فرمایا: اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جاؤ۔‘‘
معلوم ہوا کہ محرم رشتہ داروں کا بھی فرض ہے کہ افضل ترین اعمال پر بھی اپنی خواتین کی سفری ضروریات کو ترجیح دیں کیونکہ مرد و زَن کے آزادانہ اختلاط کی ممانعت کی یہ بنیادی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزید فرامین موجود ہیں ، مثلاً
3. لا یخلونَّ رجل بامرأۃ إلا کان ثالثہما الشیطان)) (جامع ترمذی:۱۱۷۱ )
’’کوئی بھی غیرمحرم مرد کسی عورت کے ساتھ علیحدگی میں نہیں ہوتا، مگران کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘ (جو اُنہیں برے کام کی تلقین کرتا ہے)
یہ مسئلہ پوری ملت ِ اسلامیہ کا اجماعی مسئلہ ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں :
اتفق الفقہاء علی أنہ یحرم علی المرأۃ أن تسافر بمُفردہا وأنہ لا بد من وجود محرم أو زوج معہا (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۲۵/۳۷)
’’فقہاے عظام کا اتفاق ہے کہ عورت کے لئے اکیلے سفر کرنا حرام ہے ، اور اس کے ساتھ سفر میں کوئی محرم یا شوہر ہونا ازبس ضروری ہے۔‘‘
فرامین نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صراحت او رحکمت روز ِروشن کی طرح واضح ہے، اور سعودی حکومت کا سفر حج میں محرم کو لازمی کرنے کی شرعی وجہ یہی ہے،لیکن ہمارے نام نہاد شرعی ماہرین پاکستانی حکومت کو اس حکم شرعی میں ترمیم کی تلقین کرکے قوم کوباور کرا رہے ہیں کہ شریعت میں اس قسم کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
سفارش5:’’خالص سائنسی طریقے سے مکہ مکرمہ کو مرکز بنا کر چاند کی ولادت کے لحاظ