کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 78
تقاضوں کی تکمیل پر ہی موقوف ہے۔ جہاں شرعی تقاضے پورے ہوجائیں وہاں نکاح وطلاق واقع ہوجاتے ہیں ، اس تجویز کی حیثیت مزید تلقین سے زیادہ نہیں اور نکاح وطلاق کو اس پر منحصر قرار دینا شرعی نظام میں اضافہ اور مداخلت ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ۔ سفارش4: ’’کونسل نے محرم کے بغیر خواتین کے سفر حج کے بارے میں فیصلہ دیا۔ دستورِ پاکستان اور دیگر ملکی قوانین کے تحت خواتین آزادی سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سفر کرسکتی ہیں ، اسپر کوئی قدغن نہیں ہے۔سعودی عرب کے قوانین کونسل کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتے۔‘‘ جائزہ: اس سفارش کے پس پردہ یہ گمراہ کن تصور موجود ہے کہ زمانہ کی ترقی کے باعث شریعت میں تبدیلی ہونی چاہئے اور حکومت کو اس امر کا اختیار ہونا چاہئے کہ وہ حالات کی رو رعایت سے شریعت میں ترمیم کرسکے۔ جبکہ دراصل شریعت کے اس حکم میں غایت درجہ حکمت موجود ہے، اس میں مردوں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ دورانِ سفر کی صعوبتوں اور پریشانیوں سے نمٹنے کے لئے وہ اپنی خواتین کے ہمراہ موجود ہوں ۔ اسلام میں زندگی کے کسی مرحلہ پر بھی نہ تو عورت پر اپنی مالی کفالت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور نہ ہی اپنی حفاظت کی۔ بلکہ ہمیشہ سے یہ دونوں ذمہ داریاں ان کے انتہائی قریبی مرد حضرات کے ذمے ہیں ، کیونکہ جب بھی عورت کو اپنی مالی ضروریات یا جسمانی تحفظ کے لئے کسی غیرمحرم مرد کا محتاج ہونا پڑے گا، ایسی صورت میں عورت کو خود استحصال اور حرص وہوس کا نشانہ بننا ہو گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے مذکورہ بالا سفارش کے ذریعے دراصل اسلام کے تصورِ اختلاطِ مرد و زَن کی ممانعت کو سمجھے بغیر مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کا راستہ کھولا ہے۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ دورِجدید کی ترقی کے باوجود دوصنفوں کی یہ باہمی کشش اور کشمکش پہلے سے کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ عورت کے اسی تحفظ کے لئے اللہ تعالیٰ نے مبارک ترین سفر حج وعمرہ میں بھی محرم مرد کا ساتھ ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مقدسہ بالکل واضح ہیں جنہیں ہماری کونسل تبدیل کرنے کی نامراد سعی کررہی ہے : 1. لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ والیوم الآخر أن تسافر مسیرۃ یوم ولیلۃ لیس معہا حُرمۃ)) (صحیح بخاری: روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ : رقم ۱۰۸۸)