کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 77
﴿فَمَتِّعُوْہُنَّ عَلی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوْفِ﴾ ’’تم اُنہیں بوقت ِطلاق فائدہ پہنچاؤ، کشائش والا اپنی قدرت کے مطابق اور تنگ دست اپنی گنجائش کے مطابق، معروف طریقے سے فائدہ پہنچانا۔‘‘ اس آیت ِکریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں اَزدواجی نا ہمواریوں کا انجام باہمی نفرت وعداوت کی بجائے اس طرح ہونا چاہئے کہ مرد اپنی مطلقہ بیوی کو حسنِ سلوک اور مالی تحائف وغیرہ دے کر رخصت کرے کیونکہ ا س سے عورت کو نفسیاتی تسکین حاصل ہوگی، آخر کار وہ اس مرد کی انتہائی قریبی شخصیت رہ چکی ہے اور اس کے بچوں کی ماں بھی ہے، تاکہ مستقبل میں دونوں کی باہمی رنجش و مخالفت سے اگلی نسل حتیٰ الامکان کم سے کم متاثر ہو۔ جہاں تک مطلقہ عورت کو ساز وسامان دینے کا تعلق ہے تو امام شافعی رحمہ اللہ وجمہور علما رحمہ اللہ کے بقول یہ محض مستحب امرہے جس پر شوہر کو مجبورنہیں کیا جاسکتا۔ امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سازوسامان واجب ہوتا تو اس کی بنا پر عدالتیں لوگوں کو پابند کیا کرتیں ، لیکن آج تک کسی عدالت نے اس بنا پر شوہر کو قید وغیرہ نہیں کیا۔ دراصل یہ سازوسامان ایسی مطلقہ عورت کے حق میں تو ضروری ہے جس کو ہم بستری سے قبل طلاق دی گئی ہو جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو حق مہر کا متبادل قرار دیا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں اگر باہم اتفاق نہ ہو تو نصف حق مہر ادا کرنا ہوگا، جیسا کہ اگلی آیت میں اس کی صراحت بھی آگئی ہے۔ الغرض شریعت ِاسلامیہ میں اس امر کو مستحب قرا ردیا جاسکتا ہے کہ مطلقہ عورت کو خوش اُسلوبی اور تحائف وغیرہ کے ساتھ رخصت کیا جائے لیکن عدالتی سطح پر اس کو واجب قرار دینا شریعت سازی ہے اور مغرب نوازی ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ سفارش3:طلاق کی رجسٹریشن کے نظام کو مؤثر بنایا جائے اور اس کی رجسٹریشن بھی اسی طرح ہونی چاہیے جس طرح نکاح کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔ اس سفارش کا مقصد یہ پیش کیا گیا ہے کہ اس طرح ایک مجلس کی تین طلاقوں میں کمی آئے گی، ہر طلاق علیحدہ رجسٹر ہونے کے بعد دوسری طلاق علیحدہ دی جائے گی۔ کونسل کی سفارش کا یہ پہلو اگرچہ درست ہے، لیکن یاد رہنا چاہئے کہ نکاح وطلاق کے منعقد ہونے کا انحصار ان کے شرعی