کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 76
سوا کوئی چارہ نہ رہا اور آخر کار یہ قانون بھارت سے ختم کردیا گیا۔ اس سفارش کا مقصدبیوی کو شوہر کے مال میں شریک کرنا ہے، چنانچہ ارشاد احمد حقانی نے ۱۸/نومبر کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں اس شق کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے کہ ’’ کونسل نے یہ سفارش کی ہے کہ خاوند پہلی شادی کی صورت میں اپنی جائیداد اور اثاثہ جات کی تما م تفصیل شادی کے وقت لکھ کردینے کا پابند ہوگا۔ اگر وہ دوسری شادی کررہا ہے تو اس میں پہلی بیوی اور اس کے بچوں کی تمام تفصیلات بھی درج کرے گا۔‘‘ یہ تجویز مغربی ممالک کے قانونِ ازدواج سے متاثر ہوکر شامل کی گئی ہے، جیسا کہ برطانیہ کا مشہور قانون ہے کہ شوہر مطلقہ بیو ی کو اپنی جائیداد میں سے نصف حصہ دینے کا پابند ہوگا، اور عدالت اس کا تعین شوہر وبیوی کے ذمہ دارانہ رویے اور دیگر متعدد وجوہ کی بنا پر کرے گی، مطلقہ کو ملنے والا یہ حصہ بعض صورتوں میں نصف سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے برطانوی قانون Matrimonial Causes Act 1))73 کی دفعہ ۲۵) اسی قانون کی بنا پر چند برس قبل آغا خانی فرقہ کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خاں نے، جو برطانوی شہریت رکھتا ہے، جب اپنی فرانسیسی بیوی کو طلاق دی تو اس کے ۲ بلین ڈالر کے اثاثہ جات میں سے ایک بلین ڈالر اس کی بیوی کو محض مطلقہ ہونے کی بنا پر حاصل ہوگئے۔ قابل توجہ امر ہے کہ ایک روحانی پیشوا کی جمع کردہ دولت جو دراصل اس کے بجائے، فرقے کے لوگوں کے نذرانوں اور عطیات وغیرہ پر مشتمل تھی، کس طرح ایک غیرمسلم عورت کے ہاتھ لگ گئی…!! اسی سے ملتے جلتے اَزدواجی قوانین برطانیہ اور یورپ میں بعض سرکار نوازمسلم تنظیمیں ’مسلم میرج ایکٹ‘ کے نام حکومت سے پاس کروانے کے لئے کوشاں ہیں جس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ مسلمان یورپ وغیرہ میں الگ تشخص کی بجائے یورپی اقوام میں گھل مل کر رہنا چاہتے ہیں ۔ جہاں تک اس تجویز کے شرعی پہلو کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں قرآنِ کریم کی آیت اور مفسرین وفقہا کا موقف ملاحظہ فرمائیے، سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر۲۳۶ کے الفاظ ہیں :