کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 75
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح وطلاق اور رشتہ داریاں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خاص اُمور ہیں جن میں کسی قسم کی ترمیم شریعت سازی اور اللہ کے نظام میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔
٭ اسی طرح قرآنِ کریم کی سورۃ الاحزاب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رشتہ داریوں کا ایک نظام دیا ہے اورکسی کے بیٹا کہہ دینے سے کوئی دوسرے شخص کا حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا:
﴿وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَائَکُمْ اَبْنَائَکُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِأفْوَاہِکُمْ وَاللہ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدیْ السَّبِیْلَ اُدْعُوْہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِ﴾
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنادیا، یہ تو تمہارامحض اپنے منہ سے کہہ دینا ہے، حالانکہ اللہ ہی حق بات کہتا اور راہِ راست کی ہدایت دیتا ہے۔ ان منہ بولوں کو ان کے ماں باپ کے نام سے ہی پکارو، یہی اللہ کے ہاں زیادہ قرین انصاف ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۴)
اس بنا پر نکاح وطلاق کے نظام میں دخل اندازی کرتے ہوئے کسی کو ۹۰ دن بعد طلاق کا پابند کردینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی عورت کسی شخص کی بیوی ہو اور اس کو خود ساختہ قانون کے تحت اس کے حبالہ عقد سے خارج کردیا جائے، جبکہ اللہ کے ہاں اسی شخص کی بیوی ہی ہے۔ یہ اللہ کے نظام میں مداخلت اور دین سے اِستہزا ہے جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کو شرمسار ہونا چاہئے۔
سفارش2: ’’طلاق کے مؤثر ہوجانے کے بعد مطلقہ عورتیں اگر چاہیں تو عدالت شوہر کے معاشی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے قرآن کے مطابق عطا کردہ حق متاع کی مقدار متعین کرنے کا حکم صادر کرسکتی ہے، جو یک مشت بھی ہوسکتی ہے اور ماہ بہ ماہ بھی، جب تک مطلقہ عورت کی اگلی شادی نہ ہوجائے۔‘‘
تبصرہ:کونسل کی یہ سفارش مغربی نظریات سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ چند برس قبل ہندوستان میں یہی مسئلہ شاہ بانو کیس کی صورت میں اُٹھا تھا جس میں ہندوستان کی ایک اعلیٰ عدالت نے یہ قرار دیا تھا کہ جب تک مطلقہ عورت آگے شادی نہ کرلے، اس وقت تک اس کے سابقہ شوہر کو اس کی حیثیت کے مطابق نان نفقہ دینے کا پابند کیا جائے۔ دلچسپ بات ہے کہ جو نکتہ ایک ہندو ملک کی عدالت کو سوجھا تھا، پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے قرآنِ کریم کی بھی منشا قرار دے لیا جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس فیصلہ کے خلاف اس قدر بھرپور تحریک چلائی کہ راجیو گاندھی کو بھارتی پارلیمنٹ سے اس قانون کو ختم کرانے کے