کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 74
استہزا اور کھلواڑ کے بھی مترادف ہے۔ شریعت ِاسلامیہ میں مردوزَن کاازدواجی تعلق صرف نکاح کے ذریعے ہوتا ہے اور جدائی طلاق، لعان یا خلع کے ذریعے جن کے مسلمہ اُصول شریعت میں واضح کردیے گئے ہیں ۔ جبکہ زیر نظر سفارش میں نہ تو خلع کے اُصول پیش نظر رکھے گئے ہیں اور نہ ہی طلاق کے، اس بنا پر یہ واضح ہی نہیں ہوسکتا کہ یہ خلع ہے یا طلاق؟ چنانچہ ٭ اگر اس تجویز کو طلاق قرار دیا جائے تواس میں شوہر کو طلاق دینے کا پابند کرنے کی کیا توجیہ کی جائے جبکہ طلاق توشوہر اپنی مرضی سے دیتا ہے۔ ٭ اگر اس کو خُلع سمجھا جائے تو خلع میں بیوی کو حق مہر سے دستبردار ہونا پڑتا ہے، جبکہ یہاں بیوی کا حق مہر اس کے لئے ہی برقرا ر رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ طلاق کی مذکورہ بالا تجویز عجیب وغریب ہے جو نامعلوم کس شریعت سے ماخوذ ہے۔ یہ نہ تو خلع ہے اور نہ ہی طلاق۔ اس کا تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ اگر کوئی شخص چند ماہ کے بعد اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ گھومتا پھرتا پائے تو اس کی بیوی یہ کہہ سکتی ہے کہ کیا میں نے فلاں تاریخ کو تمہیں طلاق کا نوٹس نہیں دیا تھا جس کے ۹۰ دن بعد از خود طلاق واقع ہوگئی تھی اور اس کے بعد میں نے اس شخص سے شادی رچا لی ہے۔ کونسل کی اس سفارش کی موجودگی میں شوہر اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گا۔ اس بنا پر بعض اہل علم کا یہ کہنا درست ہے کہ اس تجویز کے ذریعے شوہر کو طلاق پر مجبور کیا جارہا ہے اور عقد ِنکاح کو اس کے ہاتھ سے نکال کر بیوی کے ہاتھ میں بھی تھمایا جارہا ہے جو قرآن کے الفاظ سے براہِ راست متصادم ہے۔ ٭ یہاں یہ نکتہ واضح رہنا چاہئے کہ نکاح و طلاق اور رشتہ داریوں کے معاملے دراصل براہِ راست حقوق اللہ میں سے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں من جملہ دیگر ہدایات کے عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ((فاتقوا اللہ فِي النساء فاِنکم أخذتموہن بِأمانِ اللہ واستحللتم فروجہن بِکَلِمۃِ اﷲِ)) (صحیح مسلم: ۱۲۱۸) ’’ اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تم نے اللہ کی امان پر اُنہیں اپنے عقد میں لیا ہے، اور ان کی شرمگاہوں کو تم نے اللہ کے کلمہ کی بنا پر حلال کیا ہے۔الخ‘‘