کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 73
جائزہ: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش بڑی انوکھی اور مغرب کے نظریۂ مساواتِ مرد وزَن پر ایمان لانے کا نتیجہ ہے۔ یہاں عورت کو بھی اسی طرح طلاق کا حق دیا جارہا ہے جیسے یہ حق مرد کو حاصل ہے۔ حالانکہ یہ نظریہ قرآن کریم کے صریح خلاف ہے، آیت ِکریمہ ہے: ﴿اَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ﴾ (البقرۃ: ۲۳۷) ’’یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔‘‘ ٭ آیت ِکریمہ میں شوہر کو عقد ِ نکاح کا مالک قراردیا گیا ہے، اور سنن دار قطنی میں بھی واضح الفاظ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے کہ ((ولي عقدۃ النکاح: الزوج)) ( ۳/۲۸۰) ’’عقد ِنکاح کا ذمہ دار / مالک شوہر ہے۔‘‘ ٭ اسی طرح قاضی شریح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ بیدہ عقدۃ النکاح سے کون مراد ہے؟ میں نے کہا کہ لڑکی کا ولی۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: نہیں بلکہ اس سے مراد شوہر ہے: ’’لا بل ہو الزوج‘‘ (سنن دارقطنی: ۳۷۵۷) ٭ اسلام کا یہ مسلمہ نظریہ ہے کہ نکاح میں مردکو عورتوں پر انتظامی برتری دی گئی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے کہ ’’مرد عورتوں پر نگران ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو فضیلت دی ہے او ر مرد ان کی کفالت کرتے ہیں ۔‘‘ ( النساء:۳۴) ٭ اور آیاتِ طلاق کے سیاق میں بھی قرآنِ کریم نے ا س امر کی صراحت کردی ہے کہ ﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃً وَّاللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ ( البقرۃ:۲۲۸) ’’ اور مردوں کو عورتوں پر یک گونہ درجہ حاصل ہے اور اللہ غالب وحکمت والا ہے۔‘‘ مردوں کی یہ اَزدواجی برتری ان کی جسمانی ساخت اور زندگی میں ان کے فرائض سے متعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ مرد کو تو بیک وقت چار شادیوں کی اجازت ہے لیکن مساواتِ مرد وزن کے قائل بھی یہ مساوات قائم کرنے کے داعی نہیں ہوسکتے کہ عورت کو بھی مرد کی طرح بیک وقت چارشوہر رکھنے کی اجازت ہونی چاہئے یا یہ کہ مساوات کی بنا پر شریعت میں اس کی گنجائش پیدا کی جائے۔ اس اساسی تصو رکے بعد نظریاتی کونسل کی مذکورہ بالا سفارش جہاں مرد وعورت کو طلا ق میں غیر شرعی مساوات دینے کی کوشش پر مبنی ہے، وہاں مذکورہ بالا سفارش شریعت ِاسلامیہ سے ایک