کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 72
حالت ہو کہ حکومت ایک قانون نافذ کرے اور جس کا جی چاہے،اس کی مخالفت میں کھڑا ہوجائے اور قرآن وحدیث کی کتابیں بغل میں داب کر مناظرہ کا چیلنج دے دے۔ اس آیت مقدسہ کا مفہوم بالکل واضح ہے جس میں اللہ اور رسول سے مراد ہی مرکز ِملت ہے، اور اولی الامر سے مفہوم افسرانِ ماتحت۔ اس سے مطلب یہ ہے اگر کسی مقامی افسر سے کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے تو بجائے اس کے کہ وہیں مناقشات شروع کردو، امر متنازع فیہ کو مرکزی حکومت کے سامنے پیش کرو۔ اسے مرکزی حکومت کی طرف ریفر کردو۔ مرکز کا فیصلہ سب کے لئے واجب التسلیم ہوگا۔‘‘ (معراجِ انسانیت: ص۶۲۵، ۶۲۶) طلوع اسلام کو حکومت ِوقت کو یہ اختیار دینا سراسر غلط ہے اور اس کا مقصد حکومت وقت کو شریعت سازی کا اختیار دینا ہے جو قرآنِ کریم کی رو سے صریحاً حرام ہے: ﴿اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَاء ﴾(الاعراف:۳ ) ’’اپنے ربّ کی طرف سے نازل کردہ وحی کی ہی پیروی کرو اور اس کے ماسوا دیگر ذمہ داروں کی اتباع مت کرو۔‘‘ اس آیت ِکریمہ کی روسے مسلمانوں کو صرف ما اُنزل‘ یعنی وحی الٰہی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور یہی بات دیگر تین آیات میں بھی کہی گئی ہے کہ مسلمانوں کو ما أنزل اللہ کے علاوہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔اور جو ایسا کرے وہ ظالم، کافر اور فاسق ہے۔ (المائدۃ: ۴۴) اس فکری اشتراک اور بنیاد کی طرف اتنا اشارہ کرنا ہی کافی ہوگا کیونکہ مزید تفصیلات اور اس نظریہ کی تردید مستقل مضمون کی متقاضی ہے۔ سردست اس غلط بنیاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ان سفارشات کا ایک جائزہ ملاحظہ فرمائیں : سفارش1: یہ قانون بنا دیا جائے کہ بیوی اگر کبھی تحریری طور پر طلاق کا مطالبہ کرے گی، تو شوہر۹۰ دن کے اندر اُسے طلاق دینے کا پابند ہوگا۔ وہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو یہ مدت گزر جانے کے بعدطلاق واقع ہو جائے گی، اِلا یہ کہ بیوی اپنا مطالبہ واپس لے لے۔ اس کے بعد شوہرکے لیے رجوع کا حق نہیں ہوگا اور بیوی پابند ہوگی کہ مہراور نان نفقہ کے علاوہ اگر کوئی اَموال واملاک شوہر نے اسے دے رکھے ہیں اور اس موقعہ پر وہ اُنہیں واپس لینا چاہتا ہے، تو فصل نزاع کے لئے عدالت سے رجوع کرے یا اس کا مال اُسے واپس کردے۔