کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 71
اسلام نے واضح طور پر عورت کو طلاق کا حق دے رکھا ہے جسے طلاقِ تفویض قرار دیا جاتا ہے، نکاح نامے کے اندر بھی یہ شق نمبر ۱۸موجود ہوتی ہے جس کے تحت عورت کو مرد کی جانب سے طلاق کا حق دینے اور اس کی شرائط کا ذکر موجود ہے۔ اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔‘‘ (۲۵/نومبر)
کونسل کی سفارشات کا شرعی جائزہ
کونسل کی سفارشات پیچھے گزر چکی ہیں ، جن پر مختلف دینی رہنماؤں اور جماعتوں کا تبصرہ بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔ نظریاتی کونسل کی ان سفارشات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کے ایک جائزے سے قبل یہ واضح رہنا چاہئے کہ کونسل کی زیر نظر سفارشات مشہور منکر ِحدیث غلام احمد پرویز کے نظریات بالخصوص نظریۂ مرکز ِملت سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ِوقت کو شریعت میں ترمیم وتنسیخ کرنے کا حق حاصل ہے۔
٭ چنانچہ منکر ِحدیث غلام احمد پرویز کے نزدیک شریعت کی انوکھی تعریف ملاحظہ فرمائیے:
’’اس قرآن کے اُصول محکم اساس پر مبنی ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ لیکن ان اُصولوں کی جزئیات مختلف حالات کے تقاضوں کے ساتھ اَدلتی بدلتی رہتی ہیں ۔ ان بدلنے والی جزئیات کو’ شریعت‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ (طلوعِ اسلام: اکتوبر ۱۹۵۰ء ص ۲۶)
’’قرآن میں جہاں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد امامِ وقت یعنی مرکز ِملت کی اطاعت ہے۔ جب تک رسول اللہ اُمت میں موجود تھے، ان کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت تھی، او رآپ کے بعد آپ کے زندہ جانشینوں (مسلم حکمرانوں ) کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت ہوگی۔‘‘
(’مقامِ حدیث‘: ص ۱۳۰)
٭ طلوع اسلام کے ایک رکن ڈاکٹر عبد الودود’ مرکز ِملت‘ کی تفسیر یوں کرتے ہیں :
’’ رسول کی زندگی کے بعد فیکم رسول سے مراد ملت کی مرکزی اتھارٹی ہے جورسول کا فریضہ یعنی امربالمعروف اور نہی عن منکر ادا کرتی ہے۔ اور یہ کہ رسول کے بعد صرف مرکز ِملت کو یہ حق حاصل ہے کہ دینی اُمور میں فیصلہ کرے۔‘‘ (طلوع اسلام: جون ۱۹۵۹ء)
٭ مزید واضح الفاظ میں پرویز صاحب فرماتے ہیں :
’’ غور فرمائیے کہ دنیا میں کوئی نظامِ حکومت کیا اس طرح سے قائم بھی رہ سکتا ہے کہ جس میں یہ