کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 70
’’حکومت ملک میں خواتین کے تحفظ، بچوں کی کفالت اور ان کی حفاظت سمیت خواتین کے حقوق کی بہتری کے لئے قانون سازی کرنا چاہتی ہے لیکن یہ تمام قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق اور اس کے دائرہ کے اندر ہو گی اور جہاں ضرورت پڑے گی، ہم دیگر علماے کرام سے بھی مشاورت کریں گے۔ پیر کو وزارتِ قانون وانصاف میں منعقدہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے طلاق اور دیگر سفارشات کی تفصیل طلب کی ہے تاکہ آئین کے تحت ان کا جائزہ لیا جا سکے۔ اُنہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا کے حوالہ سے غور کیا گیا اور اس میں طلاق، نان نفقہ اور بچے کی تحویل سے متعلقہ اُمور پر گفتگو ہوئی۔ آئین کی شق۲۲۷کے تحت لازم ہے کہ تمام قوانین کو اس دستوری شق کے تحت دیکھا جائے کیونکہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون ملک میں نہیں بن سکتا۔ طلاق کے مؤثر ہونے کے موضوع پر خاصا تبادلہ خیال ہوا۔ اِجلاس میں اس سوال پر بھی غور ہوا کہ طلاق کے بعد کیا عورت کا شوہر کی جائیداد میں حق ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ طلاق کے بعد بچوں کو نان نفقہ دینے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود نے اجلاس کو بتایا کہ آئندہ اجلاس میں قرآن و سنت کے تحت تجاویز پیش کریں گے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کی پارلیمان پر پابندی کے حوالہ سے سوال پر وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل۲۳۰کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے کام کے حوالہ سے صراحت موجود ہے۔ آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے کم از کم ارکان کی تعداد ۸اور زیادہ سے زیادہ ۲۰ہے، اس وقت کونسل کے ارکان کی تعداد ۱۰ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کونسل کی تشکیل درست ہے۔ کونسل کا کام سفارشات مرتب کرنا اور یہ جائزہ لینا ہے کہ قوانین قرآن و سنت کے منافی تو نہیں ۔ یہ سفارشات تجویز کی حد تک ہیں ، رپورٹ پارلیمان میں پیش کی جاتی ہے جس پر پارلیمان کو ۲سال کی مدت میں قانون سازی کرنا ہوتی ہے۔ ایک سوال پر اُنہوں نے کہا کہ عورت مرد سے علیحدگی(خلع)مانگ سکتی ہے۔ ایک خاتون کو ویسٹ پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ ۱۹۵۴ء کے تحت فیملی عدالت میں درخواست دینا ہوتی ہے جس کے تحت عدالت اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود کے اندر خاتون کے مرد کے ساتھ گزر اوقات نہ ہونے کی صورت میں اسے خلع/ طلاق کی اجازت دیتی ہے۔