کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 69
علماے کرام کے احتجاج کی وضاحت علما کے اس شدید احتجاج کے جواب میں کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود کو بھی دفاعی انداز اختیار کرتے ہی بنی اور اُنہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ اُنہوں نے قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ کو صرف سفارشات دی ہیں ، کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا، البتہ اپنے موقف کی تائید میں اُنہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’’نئی سفارشات کا مقصد عورت کو طلاق کا حق دینا نہیں بلکہ خلع کے قانون کو آسان بنانا اور طلاق کی رجسٹریشن کو لازمی بنا کر کئی قانونی پیچیدگیوں سے بچنا ہے۔ ان خیالات کااظہار اُنہوں نے گزشتہ روز ’آن لائن‘ کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ کونسل نے ڈیڑھ سال کی تحقیق اور تمام ممالک کے اسلامی قوانین کا جائزہ لینے کے بعد طلاق کی رجسٹریشن اور عورت کی طرف سے طلاق کے تحریری مطالبے پر تین ماہ میں خود بخود طلاق واقع ہو جانے کے لئے قانون کی سفارش کی ہے۔ اس سلسلے میں کونسل کے نو ممبران میں سے آٹھ نے اس کی حمایت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان سفارشات کا مقصد عورت کو طلاق کا حق دینا نہیں بلکہ خلع کے قانون کو آسان بنانا اور طلاق کی رجسٹریشن کو لازمی بنا کر کئی قانونی پیچیدگیوں سے بچنا ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ ان سفارشات کے بعد کچھ علما کرام اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے میری ذات اور کونسل کے خلاف تنقید کا ایک طوفان اُٹھایا جا رہا ہے ۔کونسل نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا بلکہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے مکمل تحقیق کے بعد طلاق جیسے حساس مسئلے پر حکومت کو قانون سازی کے لئے سفارشات پیش کی ہیں ، کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ اسلام نے عورتوں کو مکمل حقوق فراہم کئے ہیں اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اسے علیحدگی اختیار کرنے اور طلاق لینے کا حق حاصل ہے۔ اگر عورت اپنا مہر چھوڑ دے یا اس سے کچھ کم یا زیادہ مال شوہر کو دے کر طلاق طلب کرے تو شوہر طلاق دینے کا پابند ہے جبکہ طلاق کو رجسٹر کرنے سے کئی قانونی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔‘‘ (جنگ: ۲۱/نومبر) معاملہ کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے ۲۵/ نومبربروز پیر کو حکومت نے اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ اسلام میں عورت کو طلاق کا حق حاصل ہے،لیکن ہم کونسل کی سفارشات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں گے :