کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 68
جاری کی ہیں ، موجودہ کونسل میں ۸/ارکان ہیں جبکہ اس کی کل تعداد ۲۰ہے۔ تمام مکاتب ِفکر کے ممتازعلما کو شامل کرنے کے بعد سفارشات پر نظرثانی کی جائے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشات کی موجودہ حالت میں توثیق نہیں کی جائے گی۔ وفاقی وزیر مذہبی اُمور علامہ حامد سعید کاظمی نے یہ یقین دہانی منگل کے روز قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر جواب دیتے ہوئے کرائی ہے۔ قبل ازیں اپوزیشن کی طرف سے صاحبزادہ فضل کریم نے نکتہ اعتراض پر معاملہ اُٹھایا تھا۔ اُنہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے حال ہی میں جاری کی گئی سفارشات کو غیر شرعی قرار دیا اور کہا کہ یہ سفارشات موجودہ حکومت کے خلاف سازش ہے۔ حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر مذہبی اُمور غلام حامد سعید کاظمی نے ایوان میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات باضابطہ طو رپر اِرسال نہیں کی گئی ہیں ، اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کی کل تعداد ۲۰ہے، سابق حکومت نے ۸/ارکان سے ہی کام چلایا ہے، ہماری حکومت باقی ارکان کی نامزدگی کرے گی جس میں ممتاز علما کرام شامل ہو ں گے جن کا تمام مکتبہ ہاے فکر سے تعلق ہو گا، اس کے بعد ان سفارشات پر نظرثانی کی جائے گی۔ تب قانون سازی کا مرحلہ آئے گا، ان سفارشات کی موجودہ حالت میں توثیق نہیں کی جائے گی۔ وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک نے موقف اختیار کہا کہ سفارشات وزارت کو موصول نہیں ہوئی ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر علما کرام نے جو تحفظات کااظہار کیا ہے، وہ جلد بازی میں کیا جا رہا ہے، کونسل کی سفارشات پر قانون سازی قومی اسمبلی کا معاملہ ہے۔ جب سفارشات ایوان میں پیش کی جائیں گی تب ارکانِ اسمبلی اس میں ترامیم پیش کرسکتے ہیں ۔ اُنہوں نے یقین دہانی کرائی کہ خلافِ اسلام کوئی قانون سازی نہیں ہو گی۔ وفاقی وزیر پارلیمانی اُمور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ایسی کوئی سفارشات تیار نہیں کرائی ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارشات تیار کر کے ایوانِ صدر بھجوائی ہے جس کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی بنائی گئی ہے جس کی سربراہی ان کے پاس ہے۔ ادھر ایک بیان کے مطابق مرکزی جمعیت علماے پاکستان کے مرکزی صدر فضل کریم نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے اسلامی اُصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو جو سفارشات عورت کے طلاق کے سلسلے میں پیش کیں وہ غیر شرعی ہیں اور عوامِ اہلسنّت، ارکانِ مرکزی جمعیت علماے پاکستان مذکورہ چیئرمین کے خلاف قانونی اور سیاسی اقدامات کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔‘‘ (روزنامہ جنگ :۱۹/نومبر )