کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 64
ہے۔ کونسل کے تمام اَراکین نے صدر کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا کہ اب کونسل کی سفارشات کو بہت جلد بحث کے لئے پیش کیا جاسکے گا۔ ‘‘
پاکستان کے ممتاز ومعتمد علماے کرام کا شدید احتجاج
1. کونسل کی ان تجاویز کو اخبارات میں شائع ہوئے ابھی ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ اس بارے میں ہر مکتب ِفکر کا شدید احتجاج سامنے آیاہے۔ پاکستان کے جید اہل علم اور ممتاز دینی ادارے اِن کی مخالفت میں یک زبان ہیں ۔ اِن سفارشات کے غلط ہونے میں کہیں دو رائے موجود نہیں اور اِنہیں شریعت میں کھلم کھلا تحریف قرار دیا جارہا ہے ، مثلاً:
’’اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین شریعت میں تحریف کی کوششوں سے باز رہیں ۔ ان خیالات کا اظہار ’عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت‘ اور ’جامعہ علوم اسلامیہ،بنوری ٹاؤن‘ کے رہنماؤں نے کراچی دفتر میں منعقدہ ایک اجلاس میں کیا۔ ’عالمی مجلس تحفظ ِ ختم نبوت‘ کے نائب امیر اور جامعہ علوم اسلامیہ کے رئیس ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر ، نائب مدیر سید سلیمان یوسف بنوری، عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کراچی کے امیر مولانا سعید احمد جلال پوری، مولانا امداد اللہ اور مفتی عبدالمجید دین پوری نے اجلاس میں موجود شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین خالد مسعود دین و شریعت اور منصوصاتِ اسلام میں تحریف و تنسیخ سے باز رہیں ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ شریعت اور احکامِ شریعت آج سے۱۴سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمادیئے ہیں جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔
اُنہوں نے کہا کہ اسلام اور شریعت میں ہر دور اور طبقے کے لئے احکامات موجود ہیں ، اس میں کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کا مشورہ دینا مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
اُنہوں نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ مغرب زدہ ان نام نہاد اسکالروں کو اس اہم منصب سے برطرف کیا جائے اور ان کی جگہ مستند علماے کرام کو اس منصب پر فائز کیا جائے۔ اجلاس سے متعدد اہل علم اور دینی شخصیات نے خطاب کرتے ہوئے اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔‘‘ (روزنامہ ’جنگ‘: ۲۰/ نومبر)
2. کونسل کی ان سفارشات کے بعد مختلف اہل علم حضرات کا مطالبہ متفقہ طور پر سامنے آیا ہے کہ نظریاتی کونسل کی تشکیلِ جدید کی جائے، وگرنہ ملکی سطح پر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ موجودہ اَراکین اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اسلام کی ترجمانی کا اہم فریضہ انجام دے سکیں ۔ ان