کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 62
ملاحظہ فرمائیں ، پھر علماے پاکستان کا احتجاج اور آخرمیں ان سفارشات پر ہمارا تبصرہ۔ یا د رہے کہ درج ذیل سفارشات کا متن اسلامی نظریاتی کونسل کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ ہے، اور اُردو ترجمہ بھی کونسل کا ہی جاری کردہ ہے :
1. یہ قانون بنا دیا جائے کہ بیوی اگر کبھی تحریری طور پر طلاق کا مطالبہ کرے گی، تو شوہر۹۰ دن کے اندر اُسے طلاق دینے کا پابند ہوگا۔ وہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو یہ مدت گزر جانے کے بعدطلاق واقع ہو جائے گی، اِلا یہ کہ بیوی اپنا مطالبہ واپس لے لے۔ اس کے بعد شوہرکے لیے رجوع کا حق نہیں ہوگا اور بیوی پابند ہوگی کہ مہر اور نان نفقہ کے علاوہ اگر کوئی اَموال واَملاک شوہر نے اسے دے رکھے ہیں اور اس موقعہ پر وہ اُنہیں واپس لینا چاہتا ہے، تو فصل نزاع کیلئے عدالت سے رجوع کرے یا اس کا مال اسے واپس کردے۔
2. طلاق کے مؤثر ہوجانے کے بعد مطلقہ عورتیں اگر چاہیں تو عدالت شوہر کے معاشی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے قرآن کے مطابق عطا کردہ حق متاع کی مقدار متعین کرنے کا حکم صادر کرسکتی ہے، جو یک مشت بھی ہوسکتی ہے اور ماہ بہ ماہ بھی، جب تک مطلقہ عورت کی اگلی شادی نہ ہوجائے۔
3. طلاق کی رجسٹریشن کے نظام کو مؤثر بنایا جائے اور اس کی رجسٹریشن بھی اسی طرح ہونی چاہیے جس طرح نکاح کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔
4. مجوزہ طلاق نامہ فارم پر غور کرتے ہوئے کونسل نے فیصلہ کیا کہ اس مجوزہ فارم کے ساتھ ایک تعارفی پیرا گراف بھی دیا جائے کہ طلاق کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے جو مفاسد پیدا ہو رہے ہیں ، ان کی وجہ سے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ نکاح نامہ کی طرز پر ایک طلاق نامہ فارم بھی تجویز کیا جائے۔
5. مہرعورت کا حق ہے، اسے کسی حالت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا۔ تاہم عدالت اگر چاہے تو تحائف اور فوائد کے سلسلے میں مصالحت کراسکتی ہے۔ کونسل نے عائلی عدالتوں کے قانون مجریہ ۱۹۶۴ء کی دفعہ۱۰کی ذیلی دفعہ۴ میں لفظ حق مہر کو شادی کے عوض دیئے گئے تحائف اور فوائد سے تبدیل کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا اور اسے قانون کا حصہ بنانے کی سفارش کی۔