کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 60
ہے او روہ ہیں جناب عبد اللہ خلجی صاحب، جو گاہے بگاہے ان تجدد پرستوں کے درمیان اپنے اختلافات کا دَبے لفظوں میں اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ اس بنا پر کونسل کی موجودہ ہیئت اس اعتبار سے خلافِ آئین بھی ہے کہ شق ۲۲۸ / اے کی رو سے یہاں تمام مسلمہ مکاتب ِفکر کی نمائندگی موجود نہیں اور اس اعتبار سے بھی کہ شق ۲۲۸/ سی کی روسے کم ازکم چا رعلماے کرام ممبران میں سے فی الوقت صرف ایک شخصیت مولانا عبداللہ خلجی صاحب موجود ہیں ۔
کونسل میں مذکورہ بالا حکومتی تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلاکہ کونسل نے اپنے تابناک ماضی کے برعکس یو ٹرن لیا۔ گذشتہ دو برس کی سفارشات کا ایک سرسری مطالعہ اس دعویٰ کی کافی دلیل ہے کہ غامدی صاحب کے آنے کے بعد کونسل ان کے منحرف آراء وافکار کا مرکز ومحور بن گئی۔ وہ مباحث جو اس سے قبل غامدی صاحب کے مجلہ ’اشراق‘، ان کی کتاب ’میزان‘ اور’المورد‘ کی ویب سائٹ پر ملتی تھیں ، بعد میں ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کے معتبر نا م سے پیش ہونے لگیں ۔ یوں تو کونسل کے موجودہ اراکین اپنے تفردات اوراسلام کے بارے میں عجوبہ روزگارخیالات کے حوالے سے پاکستان کے اہل علم حضرات میں پہلے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن جاویدغامدی صاحب کی شکل میں اُنہیں ایسا نفسِ ناطقہ میسر آیا جو کتاب وسنت سے من چاہا استدلال کرنے اور اُن سے اپنی بات کہلوانے کی جراء تِ رندانہ کا حامل تھا۔ اس پر مستزاد جاوید غامدی کے مختلف ذرائع ابلاغ میں پھیلے ہوئے شاگرد٭[1] ہیں جو کونسل کی غلط سفارشات کی ترجمانی اور تائید کے لئے ہردم کمربستہ رہتے ہیں ۔ طبقہ علما میں سے صرف ایک شخصیت کی موجودگی اورمغرب نوازوں کی کثرت کے بعد کونسل کی سفارشات کو اسلام کی ترجمانی کی بجائے ’جدت پسندی‘نہ سمجھا جائے تو کیا کہا جائے؟ اگر موجودہ کونسل کو’ اسلامی نظریاتی کونسل‘ کی بجائے ’تجدد زدہ دانشوروں کا مرکز‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
غامدی صاحب کے منحرف افکار سے اس وقت بہت سے اہل علم بخوبی آگاہ ہیں ۔ محدث میں ان کے افکار پر مضامین تسلسل سے شائع ہوتے رہے ہیں ( جن میں ایک مضمون اس شمارہ میں
[1] اور یہ بچہ اس نے تقریباً پچاس سال پہلے دیکھا تھا۔ (فتح الباری)
[2] یعنی وہ لڑکیوں کے ختنے کرتی ہے اور یہ عمل عرب میں ہوتا ہے اور اسلام نے بھی اسے باقی رکھا ہے۔