کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 59
ابلاغ نے اس طرح پاکستانی قوم کے ذہن پر سوار کردیا تھا کہ گویا اس دور کا سب سے سنگین ترین مسئلہ یہی سمجھا گیا جو بچے بچے کی زبان پر تھا۔ اس دور میں مختلف قومی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ حکومت کو چاہئے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے، جو اس بحث کا اصل علمی اور آئینی پلیٹ فارم ہے، اس سلسلے میں رہنمائی حاصل کرے۔ لیکن مارچ ۲۰۰۶ء وما بعد ہونے والے کونسل کے متعدد اجلاسوں کے بعد کونسل میں ان قوانین کے خلافِ اسلام ہونے پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوسکا تھا اور حکومت کی سرتوڑ کوشش کے باوجود اُسے یہاں سے شرعی واخلاقی تائید حاصل نہ ہو سکی تھی۔
انہی دنوں مشرف حکومت نے ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کی اس اسلام پسندی اور حکومت نوازی سے گریز پر قابو پانے کے لئے بعض ’روشن خیال‘ دانشوروں کو اس کونسل میں شامل کیا تاکہ اس کی رائے میں انتظامی طور پرتبدیلی لائی جاسکے۔ اس میں سب سے اہم تبدیلی تجدد پسند دانشور جاوید احمد غامدی کی بطورِ رکن نامزدگی تھی۔ حکومت کی اس دخل اندازی کا یہ نتیجہ تو برآمد ہوا کہ کونسل اپنے اسلامی تشخص سے محروم ہوکر اپنا سابقہ اعتماد واِعزاز کھو بیٹھی اور نظریاتی کونسل کے متعدد ممبران(مثلاً حاجی محمد حنیف طیب اورمظہر سعید کاظمی وغیرہ) نے اپنی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا، لیکن باضمیر ممبران نے مشرف حکومت کو یہاں سے حدود قوانین کی کلی تائید حاصل نہ ہونے دی۔
اراکینِ کونسل کے استعفیٰ کے دنوں میں اخلاقی برتری کے لئے جاوید احمد غامدی نے بھی کونسل کی رکنیت سے عین اسی طرح استعفیٰ دے دیا جیسے چوہدری شجاعت حسین نے پارلیمنٹ سے نمائشی استعفیٰ دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دیگر مخلص ممبران سے تو آج تک کونسل محروم چلی آرہی ہے، لیکن جاوید غامدی صاحب نہ صرف اسی شان وشوکت سے بلکہ اپنے دیگر حواریوں کے آنے کے بعد زیادہ آب وتاب سے وہاں براجمان ہیں ۔ یاد رہے کہ کونسل کے موجودہ اَراکین کی غالب اکثریت تجدد پسند دانشوروں پر مشتمل ہے مثلاً رشید جالندھری، ڈاکٹر منظور احمد، سید افضل حیدر اور سرفہرست جناب صدرنشین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب۔
اس وقت کونسل میں ایک ہی شخصیت ہیں جنہیں معروف معنی میں عالم دین قرار دیا جاسکتا
[1] حدیث ۴۰۷۲… نیز البدایہ والنہایہ ج۴؍ ص۱۷
[2] محدثین اور اہل علم کوشش کرتے تھے کہ جو بات اُنہیں کسی واسطہ سے معلوم ہوئی ہو وہ حتی الامکان اس اصل آدمی سے سنی اور معلوم کی جائے جو صاحب ِواقعہ ہو۔
[3] البدایہ والنہایہ میں ہے: ’گدھ‘ کے مشابہ بیان کیا گیاہے۔