کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 161
مت کرنا اور ماں باپ کی اچھی طرح خدمت کرنا۔‘‘ ( البقرہ:۸۳) قرآن مجید نے والدین سے حسنِ سلوک کا نہ صرف حکم الٰہی بیان کیاہے بلکہ حسن سلوک کے لیے عقلی دلیل بھی مہیا کی ہے: ﴿وَوَصَّیْنَا الْاِِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِِحْسٰنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰی ۔ٓ اِِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِٓیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ اِِنِّیْ تُبْتُ اِِلَیْکَ وَاِِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾(الاحقاف :۱۵) ’’ اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیاہے۔ اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اوربڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے (میں پورا ہوتا ہے)یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس برس کو پہنچتا ہے تو کہتا ہے: اے میرے پروردگار! مجھ کو اس پر مداومت دیجئے کہ میں آپ کی نعمتوں کاشکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطافرمائی ہیں اور میں نیک کام کروں جس سے آپ خوش ہوں اور میری اولاد میں بھی میرے لیے خیر پیداکردیجئے، میں آپ کی جناب میں توبہ کرتاہوں اور میں فرمانبردار ہوں ۔‘‘ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے والدین کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا خصوصی ذکر کیا: ﴿وَبرًّا بِوَالِدَیْہ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا﴾( مریم:۱۴) ’’اور وہ اپنے والدین کے خدمت گزار تھے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے نہ تھے۔‘‘ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بچپن میں جو گفتگو کی تھی، اس میں بھی والدہ سے حسنِ سلوک کا خاص تذکرہ ہے: ﴿وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَّ بَرًّام بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا﴾ (مریم:۳۱،۳۲) ’’اورمجھ کو برکت والا بنایا میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک میں دنیا میں زندہ رہوں اور اپنی والدہ کے ساتھ حُسن سلوک کرنے والا ہوں اور مجھ کو سرکش بدبخت نہیں بنایا۔‘‘