کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 157
میرے مطب پر ۵مئی ۲۰۰۳ء کو جب حافظ صاحب تشریف لائے تو میں نے ان دونوں نسخہ جات کے بارے میں آپ سے پوچھا توآپ نے ان کی تصدیق فرمائی۔
12. بیرونِ ملک سفر:سعودی عرب میں بسلسلہ حج تین بار اور برطانیہ،متحدہ عرب امارات، دبئی اور کویت میں دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں آپ کو جانے کا اتفاق ہوا ہے ۔
راقم نے اپنی بساط بھر آپ کی دینی، دعوتی اورجماعتی خدمات کی تھوڑی بہت وضاحت کی ہے۔ آپ کے چاہنے والوں کا وسیع حلقہ ملک اور بیرونِ ملک موجودہے ۔مجھے اُمید ہے کہ وہ بھی حافظ صاحب کے بارے میں اپنے اپنے انداز میں اپنی یا داشتوں کو مرتب کریں گے ۔
13. آپ کی اولا د:آپ کی اولاد میں اکلوتا بیٹا صاحبزادہ حافظ مولانا محمداسمٰعیل میر محمدی اور دو بیٹیاں شامل ہیں جبکہ آپ کے اکلوتے بیٹے کے ہاں ایک بیٹا محمد عظیم اورپانچ بیٹیاں ہیں ۔
14. وفات اور نمازِ جنازہ: کچھ عرصہ سے آپ شوگر ودیگر امراض میں صاحب ِ فراش تھے۔ علاج معالجہ سے صحت میں کبھی کچھ بہتری آجاتی۔ بالآخر ربّ ِکریم کے اٹل فیصلے کی گھڑی یکم نومبر۲۰۰۸ء کو بعد نمازِ عشاء آپہنچی جس کے آگے ہر شاہ وگدا کو سرخم تسلیم کرنا پڑتا ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون!
اگلے روز صبح۱۱بجے مرکز البدر، بونگہ بلوچاں میں آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت مولانا عتیق اللہ عمر حفظہ اللہ نے کروائی۔ نمازِ جنازہ میں ملک بھر سے شیوخ اہلحدیث، علماے کرام، قراے عظام، دینی طلبہ اور دینی تنظیموں کے قائدین وکارکنان نے ہزاروں کی تعد اد میں شرکت کی۔ جنازے میں ہرآنکھ اشکبار تھی اور آپ کی مغفرت وبلندیٔ درجات کے لئے دعا گو۔
دوسری بار آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے آبائی گاؤں میر محمد میں ادا کی گئی۔ وہیں پر آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔آپ کی نمازِ جنازہ کے دونوں مناظر تاریخی حیثیت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دینی، تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور آپ کو جنت ِفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین!