کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 154
سخت گرمی کے موسم میں چھا نگامانگا کے ضلعی امیر مولانا محمد شفیع اپنے دیگر رفقا کے ہمراہ آپ کے ہاں گئے تو آپ کمرے میں پنکھا بند کر کے ذکر ِ الٰہی میں مصروف تھے۔ مہمانوں نے پوچھا: کیا بجلی نہیں ہے؟ فرمانے لگے: بجلی توہے، اگر آپ کو ضرورت ہے تو چلا لیں ۔ مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے پنکھا چلا لیا۔ آپ سے ہم نے پوچھا: کیاآپ نے سخت گرمی کے موسم میں بھی پنکھا نہیں چلایا۔ فرمانے لگے: میں نے سوچا کہ مسجد کے اخراجات میں کچھ کمی واقع ہوجائے ، میریپنکھا نہ چلانے سے کچھ تو بجلی کے بل میں کمی واقع ہوگی۔ 3. سخاوت: اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے آپ ہمیشہصدقہ و خیرات کرتے رہتے۔بیماری کے دنوں کا واقعہ ہے کہ کوئی ضرورت مند خاتون آپ کے پاس حاضر ہوئی اور اُس نے کچھ تعاون کی درخواست کی تو آپ نے موجود رقم اس سائلہ کو دے دی۔ آپ کے پاس ہی کھڑا آپ کا پوتا کہنے لگا: ابا جان! آپ نے ان کو کتنی رقم دینی تھی۔ آپ خاموش رہے، اُس نے پھر کہا: آپ پھر خاموش رہے۔ بچے نے جب تیسری بار کہا کہ ابا جان آپ نے جو رقم دی ہے، وہ تو بہت زیادہ ہے۔ آپ اُسے تھوڑی رقم دے دیتے، سائل تو آتے رہتے ہیں ۔ جواب میں فرمانے لگے: بیٹا تجھے علم نہیں کہ اس بے چاری عورت کا اس رقم سے مہینے بھر کا خرچہ بھی پورا ہو گا یا نہیں ؟وہ رقم پانچ ہزار روپے تھی۔ 4. تہجد کی پابندی :مرکزی جمعیت اہلحد یث ضلع قصور کے زیر اہتمام۱۵/نومبر ۲۰۰۸ء کو جناح ہال پتوکی میں حضرت حافظ صاحب کی دینی اورجماعتی خدماتِ جلیلہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ہوا۔اس موقعہ پر آپ کے صاحبزادے حافظ محمد اسماعیل نے آپ کے حوالے سے سامعین کو یہ واقعہ سنایا کہ میری تربیت کے لئے والد محترم حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ بیٹا میری عمر تقریباًآٹھ،دس سال ہوگی جب مجھے آپ کے دادا جان نے نمازِ تہجد پڑھنے کی ترغیب دی۔ میں نے اُس وقت سے تا حال نہ صرف اُس کی سعادت حاصل کی بلکہ اُسے قضا بھی نہیں ہونے دیا۔ 5. خوراک کا کم استعمال اور انکساری:ایک شخص نے آپ کے سامنے یہ بات کہی کہ آپ کی خوراک کچھ بھی نہیں جبکہ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کی خوراک تو اس سے کافی زیادہ تھی۔ فرمانے لگے کہ اگر وہ اتنی خوراک کھاتے تھے تو جو اُنہوں نے دینی خدمات سر انجام دی ہیں ،