کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 147
ہے اور انہی کے ذرائع روایت پر ایقان واعتماد کیا گیا ہے۔ حافظ محمد عظیم کی اولاد واحفاد اور دیگر احباب واصحاب کے ہاں کئی ایسے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انتہائی متوکل علیٰ اللہ اور مطمئن بذکراللہ شخص تھے۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیوی رغبتوں اور لذتوں سے ناآشنا تھے۔ اُنہیں بیٹھتے اُٹھتے اور چلتے پھرتے ہوئے بس ایک ہی فکر دامن گیر رہتی کہ ہمارا ربّ ِکریم ہم پر را ضی ہو جائے اور ہماری اُخروی زندگی بہتر ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے کہ جوبندہ اللہ کا ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس کا ہوجاتا ہے اور پھر اس کی تمام ضروریات واحتیاجات کا خود خیال رکھتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا ہو تا کہ مر حوم حافظ محمد صاحب آیت الکرسی پڑھ کر بغیر محافظ کے کھیتوں میں مویشی چھوڑآتے، ان کے مویشی محفوظ رہتے اور کبھی نقصان نہ ہوتا، حالانکہ ابتدا سے ہی میر محمد اورستوکی کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کی کثرت رہی ہے اور قتل وغارت گری ان لوگوں کا روزمرہ معمول ہے۔ حافظ محمد کے علاوہ بھی اس خاندان کے کئی افرادتقویٰ وصالحیت میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے بھائی حافظ دوست محمد بھی بڑے خد ا ترس بزرگ تھے ۔ان کے شب وروز عبادتِ الٰہی میں بسر ہوتے۔ بڑے قانع ومطمئن اور صبرورضا کے پیکر، عجز وانکساری کا نمونہ اور خشیت ِالٰہی میں محو رہنے والے شخص تھے۔ نرم رو اور نرم خو اتنے کہ کسی انسان سے اُلجھنا اور جدال وخصام تو دور کی بات ہے، وہ جانور کو بھی نہیں مارتے تھے۔ کاشتکاری کے دوران جب ہل چلاتے تو بیلوں کو چھٹری سے نہیں بلکہ کپڑے سے ہانکتے تھے۔خصائل حمیدہ سے متصف اس عظیم انسان کا۱۹۴۰ء میں ارتحال ہو ااور اُنہیں میر محمد وستوکی کے درمیان سپردِ خاک کیا گیا۔ حافظ محمد کی اولاد میں دو بیٹے ہوئے: بڑے مولوی محمد یعقوب اور چھوٹے حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی۔ مولوی محمد یعقوب کچھ عرصہ دہلی میں حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے قائم کردہ مدرسہ میں زیر تعلیم رہے لیکن وہاں کا نصاب مکمل نہ کرسکے، پھر گاؤں آکر کاشت کاری میں مصروف ہوگئے۔ ان دونوں بھائیوں پر نیکی اور تقویٰ شعاری میں بلاشبہ الولد سرّ لأبیہکی مثال صادق آتی ہے لیکن قدوقامت میں باپ کے ہم پلہ نہیں تھے۔ مولوی محمد یعقوب نے ۱۱/جنوری۲۰۰۳ء کو اپنے گاؤں میر محمد میں وفات پائی۔آپ کی اولادِ میں حافظ محمد طارق ، محمد اسحق اور چھ بیٹیاں شامل ہیں ۔