کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 146
خاندانی پس منظر
آپ کا تعلقراجپوت برادری سے تھا۔آپ کاخاندان عرصۂ درازسے ضلع قصور کے گاؤں میر محمد میں آباد ہے۔گردونواح کے تقریباً تمام دیہات میں ان کے خاندان کا ہراعتبارسے احترام موجودہے۔ دیانت داری، تقویٰ،سنت ِرسول کی محبت، شرم وحیا،خیرخواہی، قرآن و حدیث کی تدریس جیسی خوبیوں سے اللہ تعالیٰ نے خاندانِ میر محمد کو نواز رکھا ہے۔آپ کے والد گرامی حضرت مولانا حافظ محمد عظیم کے بارے میں ’تذکرۃ الا برار‘ از ڈاکٹر عبدالغفور راشد کی کتاب سے چند باتیں ملاحظہ فرمائیں :
’’حافظ محمد عظیم انتہائی متقی اور پرہیز گار شخص تھے۔ ایامِ طفولیت سے ان کا رجحان و میلان عجز وانکساری اور صالحیت اور اِتقا کی طرف ہو گیا جو تادمِ آخر قائم ودائم رہا بلکہ عرفان وسلوک میں اُنہوں نے ممتاز مقام حاصل کیا اور اسی عزت وتکریم کے ساتھ زندگی کے شب وروز بسر کردیئے۔ ان کا آبائی تعلق بھوجیان(بھارت)کے مردم خیز قصبے سے تھا،جہاں علم وعرفان کی ایسی قند یلیں اور شمعیں روشن ہوئیں جنہوں نے سر زمین ہندہی نہیں بلکہ بیرونِ ہند بھی تاریک وادیوں کو روشن کیا۔ حافظ محمد عظیم کا تعلق ایسے خانوادہ سے تھا جس کا رجحان اکثروبیشترجدال وخصام کی طرف رہا ہے لیکن ان کی بلند بختی کہ ان کے خاندان میں ان کے بڑے بھائی بلند خاں اور چچا مستقیم خاں نے، مولانا فیض اللہ خاں جو افغانستان سے بھوجیان (بھارت)آئے تھے، یعنی حضرت یحییٰ عزیز کے نانا جان ، ان کے ذریعے کتاب وسنت کا مسلک اختیار کیا جس کی بنا پر ان کے گھروں میں مروّجہ جاہلانہ طرزِ زندگی کی بجائے اُن اطوار کو اختیار کر لیا گیا تھا جن کا تقاضا کتاب وسنت نے کیا ہے۔ حافظ میر محمدی نے حفظ قرآن کے بعد ا خذ ِعلم کے لیے مدرسہ محمدیہ، لکھو کے اور مدرسۂ غزنویہ، امرتسر میں قیام کیا لیکن ان کا قلبی اور طبعی رجحان عرفان وسلوک کی طرف تھا۔ لہٰذا وہ مروّ جہ علومِ دینیہ میں کوئی زیادہ استفادہ نہیں کر سکے۔ اپنی تشنگی کی سیرابی کے لئے وہ زیادہ عرصہ سید محبوب علی شاہ لکھوی اور مولانا صوفی کمال الدین ڈوگر کی خدمت میں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان دوشخصیات کی صحبتوں کا رنگ ان کی قباے حیات پر غالب رہا۔ ان کے زہدو وَرع اور سلوک وعرفان کے بارے میں لوگوں نے کافی حکایات وروایات بیان کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صاحب ِکرامت بزرگ تھے۔
اس سلسلہ میں مولانا عبدالعظیم انصاری رحمہ اللہ کی تحریر ’تذکرہ علماے بھوجیاں ‘ سے استفادہ کیا گیا