کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 144
ہیں تو علم الفقہ کی کتابوں میں اس کا مفہوم نہیں بیان کرتے بلکہ اُصولِ فقہ کی کتابوں میں مصادرِ شریعت کی بحث کے تحت اس لفظ ’سنت‘ کا مفہوم واضح کرتے ہیں ۔جبکہ مفتی صاحب نے سنت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے اُصولِ فقہ کی کتابوں کے حوالے ہی نہیں دیے۔ کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصے کی تحقیق میں تقریباًغامدی صاحب کی ایک ہی کتاب یعنی ’میزان‘ ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔جبکہ جامع تحقیق کے لئے ان کی آڈیو،ویڈیو سی ڈیز، ٹیلی ویژن پروگرام، ماہنامہ اشراق اورغامدی صاحب کی ذاتی ویب سائٹ سے بھی استفادہ کیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا، کیونکہ ان کے ذریعے غامدی فکر ونظریہ کو سمجھنا اور پرکھنا زیادہ آسان ہے۔ الغرض پوری کتاب کے مندرجات کو پیش نظر رکھیں تو اس سے غامدی صاحب کی حمایت کی بجائے علما کی مخالفت کے رجحانات اور اَقوال ہی زیادہ میسر آتے ہیں ۔ گویا مؤلفین کی اس میزان پر بھی غامدی صاحب پورا نہیں اُترتے اوریہی نتیجہ ظاہر ہوتا کہ اُمت ِمسلمہ کے کسی درجہ کے علماے کرام کی حمایت بھی اُنہیں حاصل نہیں ہے۔ جہاں تک کتاب وسنت ہیں تو اُن میں تو بہرحال غامدی صاحب کے پیش کردہ مسائل کی جابجا مخالفت ہی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ملت ِاسلامیہ کے نت نئے فتنوں کو سمجھنے او ران سے محفوظ رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آخر میں ملک کے دو مؤقر دینی اداروں دار العلوم کراچی اور جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کو یہ توجہ دلانا مناسب ہوگا کہ ان کے فضلا کی زیر نظر تصنیف کی علمی قدر وقیمت ان کے ناموں سے زیادہ ا ن اداروں سے سند ِفضیلت کی بنا پر ہے۔ قارئین ان نوجوان مفتیانِ کرام کے استدلال کی بجائے ان اداروں کی وقعت کی بنا پر ہی اس تجزیہ کو کچھ وزن دیں گے۔ دونوں محترم مدارس کے ذمہ داران سے گذارش ہے کہ اگر اُنہیں ان نوجوانوں کی اس نادر تحقیق سے اتفاق ہے تو ان کی تائید فرمائیں ، جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ بصورتِ دیگر اس نوعیت کے حساس موضوعات پر اپنے متعلقین کی درست رہنمائی کرکے دینی فریضے سے عہدہ برا ہوں اوراس کتا ب کے بارے میں اپنے ناقدانہ تجزیہ وتبصرہ سے بھی قوم کو مستفید فرمائیں ۔