کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 143
علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا، مراکش، الجزائر، افریقہ، یمن، قطر، سعودی عرب، کویت، اُردن، شام، تیونس، لیبیااور متحدہ عرب امارات وغیرہ میں بھی کسی امام کی تقلید پر زور دینے کی بجائے تمام ائمہ اسلاف کو اپنا علمی ورثہ سمجھتے ہوئے ان سے استفادہ کی فکر و منہج بہت تیزی سے علماء میں پھیل رہی ہے جس کی ایک بہترین مثال علما کے مختلف عالمی مجمعات اور ان کے فتاویٰ ہیں ۔ ان شاء اللہ برصغیر کے علما بھی عنقریب اسی منہج کی طرف آئیں گے۔
اس کتاب کا تیسرا اور بڑا حصہ وہ ہے کہ جس کے مؤلف جناب مفتی ذیشان پنجوانی صاحب ہیں ۔ اُنہوں نے اس کتاب میں تقریباً ۹۱صفحات میں غامدی صاحب کے اُصول ومبادی پر نقد کی ہے۔مفتی صاحب نے غامدی صاحب کے نظریۂ قراء ات، تصورِ سنت اورقرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے نقطہ نظر پر اپنی تحقیق پیش کی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مفتی صاحب نے واقعتا اس حصے کی تالیف میں بڑی محنت صرف کی ہے۔ایک آدھ مقام پر مفتی صاحب نے غامدی صاحب سے اتفاق بھی کیا ہے جیسا کہ اُنہوں نے قرآن کی تعریف میں غامدی صاحب کی تعریف کودرست قرار دیاہے جبکہ اکثرو بیشتر مسائل میں اُنہوں نے غامدی صاحب کے برعکس علما کے عام نقطہ نظر ہی کی حمایت کی ہے اوراسے درست قرار دیا ہے۔
اس حصے کی بعض تحقیقات سے تو ہمیں اتفاق ہے جبکہ بعض کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ مصنف نے اصل بحث کو نہیں سمجھا جیسا کہ غامدی صاحب کے تصورِ سنت پر نقد کرتے ہوئے مفتی ذیشان صاحب نے بھی مفتی فیصل صاحب کی طرح فقہا کی کتابوں سے حوالے پیش کرتے ہوئے سنت کا مفہوم متعین کرنا شروع کر دیا۔سنت کا جو معنی و مفہوم فقہ کی کتابوں میں بیان ہوا ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن وہ محل نزاع بھی نہیں ہے۔غامدی صاحب اور اہل سنت کے درمیان حقیقی محل نزاع تویہ ہے کہ سنت کا لفظ جب بطورِ مصدرِ شریعت استعمال ہوتا ہے تو اس کامعنی کیا ہوتاہے؟
غامدی صاحب نے ’میزان‘ میں سنت کے لفظ کو بطورِ مصدرِ شریعت بیان کرتے ہوئے اس کی ایک تعریف بھی کی ہے۔ اہل سنت جب سنت کے لفظ کو بطورِ مصدرِ شریعت بیان کرتے