کتاب: محدث شمارہ 326 - صفحہ 142
کے طور پر علامہ ابن خلدون(متوفی ۸۰۸ھ) کا ایک قول بھی نقل کیاہے کہ پوری دنیا کے مسلمان چار اماموں کی تقلید پر متفق ہیں ،حالانکہ وہ علامہ ابن خلدون کی عبارت کا صحیح مفہوم سمجھ نہ سکے۔
ایک طرف ایک مفتی فیصل صاحب اس انتہا پر ہیں کہ غامدی صاحب کے گمراہ کن نظریات کو علما کے شاذ اقوال کی چھتری کا سایہ فراہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ اسی کتاب میں دوسرے مفتی کمال الدین صاحب ایک دوسری انتہا پر ہیں کہ غامدی صاحب کوائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلیدکا مشورہ فراہم کر رہے ہیں ۔مفتی صاحب ذرا یہ بتائیں کہ صحابہ و تابعین کے دور میں عامۃ الناس ائمہ اربعہ میں سے کس امام کی تقلید کرتے تھے؟میں تویہ کہتا ہوں کہ چودہ صدیوں میں کو ئی ایک سال بھی اُمت ِمسلمہ پر ایسا نہیں گزرا ہے کہ جس میں تمام مسلمانوں نے صرف ائمہ اربعہ ہی کی تقلید کی ہو۔
علامہ ابن خلدون (۸۰۸ھ)کے دور سے پہلے امام ابن حزم(۴۵۶ھ)، امام ابن تیمیہ( ۷۲۸ھ) اور محدثین کی ایک بڑی جماعت غیر مقلد تھی اور ان کے متبعین آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں اہل الحدیث، سلفیہ اور اثریہ و غیرہ کے القاب سے موجود ہیں ۔
سینکڑوں مسائل ایسے ہیں جو ہر دور میں تہذیب و تمدن کے ارتقا سے پیدا ہوتے رہے ہیں اور جن کی مثال تک متقدمین کے زمانے میں نہیں ہوتی تھی اور علماے احناف ان مسائل کا حل پیش کرتے رہے ہیں ۔یہ اجتہاد نہیں تو اور کیا ہے؟ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ مفتی حضرات فتویٰ کی زبان سے اجتہاد کا دروازہ بند کردیں یا تقلید ِجامد پر مجبور کر کے علماء کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیں ۔ درمیان کی راہ یہی ہے کہ سلف کے منہج، فہم اور اُصولوں کی پابندی کرتے ہوئے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا جائے اور کسی ایک مذہب کی تقلید پر اِصرارکرنے کی بجائے من جملہ سلف کی تمام معروف و مشہور آرا کے دائرے میں رہنے کی تلقین کی جائے اور اس دعویٰ میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ سواے برصغیر پاک و ہند کے حنفی علماء کی ایک جماعت کے سارے عالم اسلام میں اسی منہج پر کام ہو رہا ہے۔
آج سے تقریباً ۷۰، ۸۰ سال پہلے ہی مصر کے حنفی علما نے طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے کو اختیار کر لیا تھا اور اس کو مصر میں قانون کی شکل دے دی گئی تھی۔اس کے